Naveed e Tameer, Gujranwala Ke Roshan Mustaqbil Ki Kahani
نویدِ تعمیر، گوجرانوالہ کے روشن مستقبل کی کہانی

کسی شہر کی ترقی کا معیار صرف سڑکوں، فلائی اوورز یا پلازوں سے نہیں جانچا جا سکتا، بلکہ اس کے نظم و نسق، صفائی، شہری سہولیات، عوامی ریلیف اور انتظامی شفافیت سے ہوتا ہے۔ خوش قسمتی سے گوجرانوالہ ان شہروں میں شامل ہوتا جا رہا ہے جہاں یہ تمام پہلو تیزی سے نکھر رہے ہیں اور اس کا بڑا سہرا موجودہ ڈپٹی کمشنر جناب نوید احمد کے سر جاتا ہے، جنہوں نے روایتی انتظامی انداز سے ہٹ کر ایک فعال، حاضر دماغ، باکردار اور دور اندیش منتظم کی حیثیت سے اپنی پہچان قائم کی ہے۔
ابھی کل ہی کی بات ہے، جب دفتر سے واپسی پر میں گوجرانوالہ کی مرکزی شاہراہوں سے گزرا۔ وسیع و عریض، ہموار اور کشادہ سڑکیں، دکانوں کے ہم رنگ اور ایک جیسے سائن بورڈز، صفائی ستھرائی کا معیار اور کہیں بھی کچرے یا تجاوزات کے ڈھیر نظر نہ آنا، یہ سب کچھ دیکھ کر یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ یہ وہی گوجرانوالہ ہے جسے کبھی ہم "گرد آلود صنعتی شہر" کہہ کر یاد کرتے تھے۔ یوں لگا جیسے لاہور، کراچی یا کسی ترقی یافتہ ملک کی کسی جدید سڑک سے گزر رہا ہوں۔
یہ تبدیلی راتوں رات نہیں آئی۔ یہ وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف کی قیادت میں شروع ہونے والی پالیسیوں اور ڈی سی نوید احمد جیسے متحرک افسر کی شبانہ روز محنت کا ثمر ہے۔ نوید احمد صاحب اور انکی ٹیم نے خاص طور پر اقراء مبین، شبیر بٹ، فیصل سلطان صاحب اور دیگر نے نہ صرف اپنے دفتر کی چار دیواری سے باہر نکل کر عوامی مسائل کو براہ راست سنا بلکہ ان پر عملی اقدامات بھی کیے۔
قربانی کے ایام میں گوجرانوالہ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے زیرِ انتظام جس اعلیٰ معیار کی صفائی مہم چلائی گئی، وہ اپنی مثال آپ تھی۔ سی ای او شاہد عباس جوتہ صاحب اور ان کی ٹیم نے جس جانفشانی سے علائشوں کو فوری اٹھوایا، جراثیم کش ادویات کا چھڑکاؤ کیا اور شہر کے ہر علاقے میں موجودگی کو یقینی بنایا، وہ نہ صرف قابلِ تعریف ہے بلکہ قابلِ تقلید بھی۔ پنجاب بھر میں اگر کہیں شہریوں کو قربانی کے بعد صاف ستھری فضا نصیب ہوئی، تو وہ گوجرانوالہ تھا اور اس کا کریڈٹ مکمل طور پر انتظامیہ کو جاتا ہے۔
لیکن۔
جی ہاں! جہاں روشنی ہو وہاں ہلکی سی پرچھائیں بھی اپنا وجود رکھتی ہے اور میرا فرض ہے کہ ان پہلوؤں کی بھی نشان دہی کروں جن پر توجہ دینا وقت کی ضرورت ہے۔
موڑ ایمن آباد اور اس کے آس پاس کے علاقوں کی حالت اب بھی وہ توجہ نہیں پا سکی جو مرکزی گوجرانوالہ کو ملی ہے۔ ان علاقوں میں ناجائز تجاوزات اس قدر پھیل چکی ہیں کہ پیدل چلنا تو درکنار، گاڑی کا گزرنا بھی دشوار ہوتا جا رہا ہے۔ جگہ جگہ پر کھوکھے، چھوٹے غیر قانونی تعمیراتی ڈھانچے اور بعض محکموں کی طرف سے بنائی گئی غیر مجاز کھدائیوں سے پڑے کھڈے شہریوں کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔ مقامی افراد بے حد پریشان ہیں، لیکن ان کی آواز مرکزی ایوان تک پہنچ نہیں پا رہی۔
یہ علاقے چونکہ کچھ حد تک ریموٹ (دور دراز) تصور کیے جاتے ہیں، شاید اسی وجہ سے مانیٹرنگ سسٹم بھی نسبتاً کمزور ہے۔ میری مخلصانہ درخواست ہے کہ ڈی سی نوید احمد ان علاقوں کی طرف بھی خصوصی توجہ فرمائیں۔ اُن کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ جب وہ کسی کام کو اپنا لیتے ہیں، تو وہ ادھورا نہیں رہتا۔
اگر مرکزی گوجرانوالہ کی طرح موڑ امن آباد، واں بھون، نوشہرہ روڈ، قلعہ دیدار سنگھ، لوہیاں والا اور دیگر دیہی و نیم شہری علاقوں میں بھی وہی انتظامی جذبہ منتقل ہو جائے، تو بلاشبہ گوجرانوالہ پنجاب کا مثالی ضلع بن سکتا ہے اور یہ صرف دعویٰ نہیں، عملی امکان ہے۔
ڈی سی نوید احمد کی موجودگی گوجرانوالہ کے لیے کسی انعام سے کم نہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اُن جیسے باصلاحیت، باکردار اور خالصتاً "پبلک سرونٹ" افسران کی نہ صرف بھرپور حوصلہ افزائی کریں بلکہ جہاں بہتری کی گنجائش ہو، وہاں رہنمائی کے ساتھ ان کا ہاتھ بھی بٹائیں۔
آخر میں صرف اتنا کہوں گا: اگر آپ کسی شہر کی روح میں بہتری دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کے منتظم کے دل میں خلوص تلاش کیجیے اور نوید احمد کی شخصیت اس کی روشن مثال ہے۔
بہت دعائیں اور محبت پہلوانوں کے شہر کے باسیوں کی طرف سے ڈی سی صاحب اور انکی ٹیم کیلیے۔

