Monday, 14 July 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hafiz Muhammad Irfan
  4. Nashe Ki Aadat, Mehangai Ka Zehar Aur Zameer Ka Janaza

Nashe Ki Aadat, Mehangai Ka Zehar Aur Zameer Ka Janaza

نشے کی عادت، مہنگائی کا زہر اور ضمیر کا جنازہ

کسی زمانے میں ہم مہنگائی پر چیخ اٹھتے تھے۔ دو روپے کا اضافہ ہوتا تو سڑکیں بند، ٹائر جلتے، بینرز لہراتے اور ٹی وی چینلز پر بریکنگ نیوز چلتی۔

لیکن آج، سو سو روپے کا اضافہ ہوتا ہے اور قوم ہنوز خوابِ غفلت میں ہے۔ لگتا ہے ہم صرف معاشی نہیں، جذباتی اور اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہو چکے ہیں۔ وہی قوم جو پہلے گیس، بجلی اور پیٹرول کے نرخوں میں ذرا سی جنبش پر بپھر جاتی تھی، آج اُسی مہنگائی کو خاموشی سے سہہ رہی ہے۔ جیسے ہم نے درد سے لڑنا نہیں، اسے قبول کرنا سیکھ لیا ہو۔

یہ کیسے ممکن ہوا؟

بالکل ویسے ہی، جیسے کسی انسان کو آہستہ آہستہ نشے کا عادی بنایا جاتا ہے۔ پہلے چھوٹی مقدار، پھر تھوڑا بڑھا کر اور پھر اتنا کہ وہ بغیر زہر کے زندہ نہ رہ سکے۔ ہمیں بھی پہلے چند روپے کے اضافے کے ذریعے سست کیا گیا، پھر بےحسی کے انجیکشن دیے گئے اور اب ہم اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ کوئی بھی بم گرا دیا جائے، ہم ہلتے تک نہیں۔

وہ تاجر جو پہلے شٹر ڈاؤن کرکے سڑکوں پر نکل آتے تھے، آج گہری نیند سو رہے ہیں۔ وہ ٹرانسپورٹر جو کل تک ہڑتالوں سے شہ سرخیوں میں ہوتے تھے، آج خاموشی سے نرخنامہ تبدیل کرکے بیٹھ جاتے ہیں۔

یہ مایوسی نہیں، موت کی سی خاموشی ہے۔

ایک اور چیز کہ اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہر قومی سانحے کو بھی سیاسی ایندھن بنا دیا گیا ہے۔ قوم کی تربیت اس نہج پر کی گئی ہے کہ کوئی حادثہ ہو، کوئی ظلم ہو، کوئی المیہ جنم لے، سب سے پہلے ذہن میں آتا ہے کہ اس میں کون سی سیاسی جماعت کو موردِ الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے۔

سوات میں ہونے والا ہولناک سانحہ ہو یا پاکپتن کے اسپتال میں بچوں کی اموات، ہر واقعے کو سیاسی عینک سے دیکھا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ بدانتظامی، انتظامی غفلت یا ادارہ جاتی نااہلی کے کیسز ہوتے ہیں، لیکن ہمارے بعض "باشعور" طبقے اور بند ذہن رکھنے والے افراد فوراً اپنی سیاسی بھڑاس نکالنے لگتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ کسی حکومت پر تنقید کا حق ضرور ہے، مگر ہر سانحے کو پوائنٹ اسکورنگ کا موقع سمجھنا شعور کی توہین ہے۔

ایسی جماعتیں بھی موجود ہیں جن کا چہرہ بیک وقت شمال، جنوب، مشرق اور مغرب کی طرف ہوتا ہے۔ ان کی کوئی واضح سمت نہیں۔ صرف اسٹیبلشمنٹ کے اشارے کے منتظر ہوتے ہیں، جہاں سے چھڑی ہلے، وہیں ناچنے لگتے ہیں۔

یہ منافقانہ رویہ اس ملک کے مسائل کو اور الجھا رہا ہے۔

جب قیادت سمت کھو بیٹھے، جب اصولوں کی جگہ مصلحت آ جائے اور جب بیانیہ کسی اور کا ہو، تو پھر قوم صرف تماشائی بن کر رہ جاتی ہے اور سیاست؟ وہ بھی اب ایک تماشا ہے، جس میں کردار بدلتے ہیں، سکرپٹ نہیں۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) آج جس تخت پر براجمان ہیں، ان کے چہروں پر معصومیت کی چمک ہے، جیسے انہوں نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو۔ حالانکہ ان پر بننے والے مقدمات کی ایک طویل فہرست موجود ہے اور ان میں سے بیشتر انہی کی اپنی حکومتوں میں ان کے اپنے اداروں نے بنائے تھے۔

لیکن آج وہی کردار عدالتوں میں سرخرو ہیں اور عوام عدالتوں سے رسوا۔

اب یہ پارٹیاں محض اپنی بچاؤ کی سیاست کر رہی ہیں، ایک ایسی کنورہ کشتی کی طرح جو اپنی منزل کے لیے ہچکولے کھا رہی ہے، لیکن مسافروں کو پانی میں ڈوبنے دے رہی ہے۔ ان کا ہر قدم، ہر فیصلہ، ہر بیانیہ محض ذاتی مفاد کے گرد گھومتا ہے۔ عوام؟ وہ تو ان کے منشور میں کہیں ہیں ہی نہیں۔

عوام کا مفاد، جمہور کا حق اور آئین کی بالادستی اب صرف نعرے ہیں، جنہیں سیاسی تقریروں میں خوبصورتی سے برتا جاتا ہے، لیکن زمینی حقیقت میں ان کا وجود نہیں۔

آئین کی توہین، اداروں کا کھلواڑ، قانون کی بے توقیری، جتنا اس دور میں ہوا ہے، شاید ہی کسی اور دور میں ہوا ہو۔

قانون اب صرف کمزور کے لیے ہے، طاقتور کے لیے تو "قانون سازی" ہے۔

آج کی سیاست دانوں کی اکثریت اصل میں سیاسی "مجاور" بن چکی ہے۔ انہیں صرف ایک در سے ہدایت چاہیے، گیٹ نمبر چار۔ نہ ان میں قوم کے لیے سوچنے کا دم خم رہا ہے، نہ وہ کسی اجتماعی ضمیر کی آواز پر کان دھرتے ہیں۔ ان کے فیصلے ذاتی مفادات، بیرونی دباؤ اور ادارہ جاتی اشاروں پر مبنی ہوتے ہیں۔

قوم کو اب کسی لیڈر کی کال کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ جن کے پاس قوم کو جگانے کی طاقت تھی، وہ خود بیچ چکے ہیں اپنا ضمیر۔

اب اگر کوئی معجزہ ہونا ہے، تو وہ عوام کے اندر سے اٹھنا چاہیے۔ یہ جو پے در پے گرنے والے معاشی، سماجی اور آئینی بم ہیں، یہ صرف ٹریلر ہیں، پوری فلم ابھی باقی ہے۔ اگر اب بھی ہم نہ جاگے، تو پھر نہ رونے کا فائدہ ہوگا، نہ چیخنے کا۔

اب وقت ہے کہ ہم سوال کریں، آواز اٹھائیں اور اپنی تقدیر اپنے ہاتھ میں لیں۔ ورنہ تاریخ میں ہمارا نام صرف تماشائیوں میں لکھا جائے گا اور وہ بھی بے غیرت تماشائیوں میں!

Check Also

Heart Attack Ka Khof

By Najeeb ur Rehman