Khaas Hai Tarkeeb Mein Qaum e Rasool e Hashmi
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی

ایک صدی گزر گئی۔ جی ہاں، پوری ایک صدی۔ مسلمان خون میں نہاتے رہے، سرزمینیں کھنڈر بنتی رہیں، بربادی، غلامی، مہاجرت، یتیمی اور دربدری مسلمانوں کا مقدر بنتی گئی، مگر صدیاں گواہ ہیں کہ ظلم کی اندھیر نگری جب حد سے بڑھتی ہے تو قدرت کا نظام جاگ اٹھتا ہے۔
ایک صدی بعد آج پہلی مرتبہ کسی مسلمان ملک نے کسی کافر ملک کے اندر جا کر آگ برسائی ہے۔ یہ کوئی انتقام نہیں تھا، یہ مظلوموں کا مقدمہ تھا۔ یہ وہ گواہی تھی جو تاریخ نے دی کہ ایمان، تیاری اور اتحاد ہو تو دشمن کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔ سالہا سال سے مسلمانوں کے ملکوں پر کفار کی افواج فضاؤں سے موت برسا رہی تھیں۔
افغانستان میں معصوم بچوں پر ڈیزی کٹر بم برسائے گئے، عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کے جھوٹے بہانے پر ظلم کی ایسی داستانیں رقم ہوئیں کہ زمین کانپ اٹھی۔ شام، لیبیا، یمن، لبنان، پاکستان، کوئی خطہ محفوظ نہ رہا۔ ہر بار آسمان سے آتش و آہن برسا، ہر بار مسلمان آنکھیں آسمان کی طرف اٹھا کر مدد کا طلبگار رہا۔ لیکن مدد اُن کے لیے آتی ہے جو یقین رکھتے ہیں اور تیاری بھی کرتے ہیں۔ اس بار فرق تھا۔ اس بار پاکستان تیار تھا۔ عسکری طور پر بھی، سفارتی سطح پر بھی اور سب سے بڑھ کر، قوم کے دلوں میں ایمان کی وہ جوت روشن تھی جسے دنیا کی کوئی طاقت بجھا نہ سکی۔
دشمن کا غرور، اس کے میڈیا کا پروپیگنڈا اور عالمی اداروں کی منافقانہ خاموشی۔ سب کے سب اُس وقت ریزہ ریزہ ہو گئے جب پاکستانی شاہینوں نے عین دن دیہاڑے وہ کاری ضرب لگائی کہ دشمن حیرت سے منہ تکتا رہ گیا۔ ایسا پہلی بار ہوا کہ چند گھنٹوں کے اندر ہی دشمن کی فوج، جس کے بارے میں دعویٰ تھا کہ وہ دنیا کی بڑی افواج میں سے ہے، اپنے بنکرز میں چھپ گئی۔ ان کے میزائل سسٹمز، ان کے ریڈار، ان کا دفاعی حصار، سب ناکام ہو گئے۔
پاکستان نے یہ سب کچھ صرف اس لیے کر دکھایا کہ یہ لڑائی صرف بارود کی نہیں تھی، یہ لڑائی ایمان کی تھی اور جس دل میں لا الہ الا اللہ کی حرارت ہو، وہ نہ کسی سپر پاور سے ڈرتا ہے، نہ کسی بربریت سے گھبراتا ہے۔ پاکستان کی اس غیر معمولی کارروائی کے بعد جو سب سے اہم اور خوش آئند پہلو سامنے آیا، وہ عالم اسلام کا جاگنا تھا۔ عرب ہو یا عجم، افریقہ ہو یا ایشیا، مسلمانوں نے اسے صرف پاکستان کی کامیابی نہیں کہا، یہ کہا گیا کہ یہ ہماری کامیابی ہے، یہ امتِ مسلمہ کی فتح ہے۔
فلسطینی بچوں کی آنکھوں میں ایک نئی چمک ہے، غزہ کے شہیدوں کی ماؤں نے پاکستان کے لیے دعاؤں کے چراغ جلائے ہیں اور دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ اگر ایک پاکستان ایسا اقدام کر سکتا ہے تو ہر مسلمان ملک بھی کر سکتا ہے۔ بشرطیکہ وہ خواب غفلت سے جاگ جائے اور بات صرف جنگ یا حملے تک محدود نہیں رہی۔ ہمارے دوست ممالک نے وہ کر دکھایا جو کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا۔ ایک اتحادی ملک نے فضائی پابندیوں، سمندری رکاوٹوں اور عالمی دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے غزہ کے مظلوموں کے لیے امداد، خوراک اور ادویات سے بھرے جہاز بھجوا دیے۔ یہ محض سفارتی یا عسکری کامیابی نہیں تھی، یہ ایک عقیدے، ایک نظریے اور ایک قوم کی بیداری کا عملی مظاہرہ تھا۔
آج عالمِ اسلام کے کونے کونے میں ایک نئی روح پھونکی جا رہی ہے۔ مسلمان نوجوان اب صرف سوشل میڈیا پر جذباتی نعرے نہیں لگاتے، وہ اب زمینی حقیقتوں کو سمجھنے لگے ہیں۔ اب وہ جان چکے ہیں کہ دشمن صرف بندوق سے نہیں، فکری یلغار، ثقافتی حملوں اور نفسیاتی جنگ سے بھی آتا ہے اور اس سب کا توڑ پاکستان نے ایمان، اتحاد اور قربانی سے دیا ہے۔ ہمارے سیاستدان، ہمارے صحافی، ہمارے دانشور، سب جان لیں کہ وقت آگیا ہے جب ہمیں مغرب کی خوشنودی کو چھوڑ کر اپنے اصل دشمن کو پہچاننا ہوگا۔ جو قوم اپنے ہیروز کو بھلا دیتی ہے، جو اپنے نظریات سے غافل ہو جاتی ہے، وہ قوم تاریخ سے مٹ جاتی ہے۔ مگر الحمدللہ! پاکستان نے ثابت کر دیا کہ وہ ایک نظریاتی ملک ہے اور نظریاتی ممالک مٹایا نہیں جا سکتا۔
اس موقع پر ہم اپنے شہداء کو کیسے بھول سکتے ہیں؟ جنہوں نے وطن کی خاطر جان دی، وہی آج کی فتح کے اصل معمار ہیں۔ اُن کی قربانیاں رائیگاں نہیں گئیں۔ آج اُن کی روحیں خوش ہوں گی کہ ان کے وارثوں نے وقت پر دشمن کو للکارا اور امت کے ضمیر کو جھنجھوڑا۔ دنیا میں بڑی بڑی سپر پاورز تھیں، آج نام بھی باقی نہیں۔ سلطنت روم، فارس، برطانیہ، سب ڈھیر ہوگئیں۔ تاریخ کا اصول ہے: جو ظلم کرتا ہے، مٹ جاتا ہے اور جو مظلوم ہو کر بھی کھڑا ہو جائے، تاریخ اس کے قدم چومتی ہے۔
پاکستان نے مظلوموں کے لیے آواز بلند کی، میدان میں اترا اور دشمن کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر کہا: بس بہت ہو چکا۔ اب اگر ایک بچہ بھی قتل ہوا تو حساب ہوگا اور یہی وہ لمحہ ہے جب امت کو ایک نئی قیادت کی ضرورت تھی۔ قیادت وہ جو خواب دکھانے کے بجائے عمل کرے، جو تقریروں کے بجائے کردار سے قوم کی رہنمائی کرے، جو مغرب کے در پر سجدہ ریز نہ ہو بلکہ خانہ کعبہ سے روحانی طاقت حاصل کرے۔
اس وقت دنیا کی نظریں پاکستان پر ہیں اور پاکستان اگر اپنے اصولوں پر قائم رہا، اگر ہم نے فکری یکجہتی برقرار رکھی اور اگر ہم نے اپنے ایمان کو تجارت یا سیاست کا موضوع نہ بنایا، تو یہ قوم وہ مقام حاصل کر سکتی ہے جس کا وعدہ اقبال نے کیا اور جو خواب قائد اعظم نے دیکھا۔ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ دشمن اپنی چالوں سے باز نہیں آئے گا۔ اب وہ ہمارے اندر سے وار کرے گا۔ فتنہ، پروپیگنڈا، سوشل میڈیا کی جھوٹی خبریں، فرقہ واریت اور نوجوانوں کو گمراہ کرنے والے نیٹ ورک، یہ سب نئے ہتھیار ہیں۔ ہمیں ان کا توڑ بھی کرنا ہے۔
ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو اسلامی اور نظریاتی بنیادوں پر استوار کرنا ہوگا۔ میڈیا کو قومی مفاد کا پاسبان بنانا ہوگا اور سب سے بڑھ کر، قوم کے ہر فرد کو یہ یقین دلانا ہوگا کہ ہم ایک عظیم مقصد کے لیے جی رہے ہیں۔ ہم پاکستان کے نظریے کے محافظ ہیں، ہم مظلوموں کے وکیل ہیں اور ہم حق کے علمبردار ہیں۔ دنیا کو اب سمجھ لینا چاہیے کہ یہ نیا پاکستان ہے۔ یہ وہ پاکستان ہے جسے دبایا نہیں جا سکتا۔
یہ وہ ملت ہے جو رسول ہاشمیﷺ کی امت ہے اور جس کی ترکیب میں خاص رنگ ہے۔ یہ وہ قوم ہے جو وقتی شکستوں سے نہیں، صرف اپنے رب کی رضا سے فیصلہ کرتی ہے۔ آج اگر ہم متحد رہے، اگر ہم نے اپنی صفوں میں دشمن کو داخل نہ ہونے دیا، اگر ہم نے اپنے مفادات کو امت کے مفاد پر قربان کر دیا، تو وہ دن دور نہیں جب مسجد اقصیٰ سے لے کر کشمیر تک، سب مظلوم یہ نعرہ لگائیں گے۔ "اے پاکستان! تو صرف ایک ملک نہیں، تو امت کی امید ہے"۔

