Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hafiz Muhammad Irfan
  4. Insaniyat Ba Muqabla Mafad Parasti

Insaniyat Ba Muqabla Mafad Parasti

انسانیت بمقابلہ مفاد پرستی

یہ زمانہ جس تیزی سے بدل رہا ہے، اسی تیزی سے ہماری ترجیحات بھی بدلتی جا رہی ہیں۔ کل تک جو چیزیں خواہشات کہلاتی تھیں آج ہم نے انہیں"ضروریات" کا نام دے دیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ انسان اپنی ہی تراشی ہوئی مصنوعی دنیا میں بے سکون ہو کر رہ گیا ہے۔ آج ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے۔ کسی کو اپنی حیثیت سے زیادہ دکھاوے کا بوجھ کھائے جا رہا ہے تو کوئی اپنی انا اور خود غرضی کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔

زندگی کے آدھے سے زیادہ مسائل محض اس بنا پر جنم لیتے ہیں کہ ہم دوسروں کو کیا دکھا رہے ہیں۔ ہم نے اپنی خوشیوں اور سکون کو دنیا کے معیار سے ناپنا شروع کر دیا ہے۔ وہی معاشرہ جس میں کبھی رشتے داریاں، محبتیں اور تعلقات سب سے بڑی دولت سمجھے جاتے تھے، آج وہاں بڑے بڑے محلات اور چمکتی گاڑیاں کامیابی کا معیار ٹھہریں۔

یہ حقیقت ہے کہ انسان نے انسان کو اکیلا کر دیا ہے۔ کبھی محلے میں کسی کے گھر خوشی ہوتی تو سب شریک ہوتے، غم ہوتا تو سب کندھا دینے آتے۔ آج کے دور میں دکھ اور سکھ بھی سوشل میڈیا کی پوسٹ تک محدود رہ گئے ہیں۔ ہم جڑے رہتے تھے آباد مکانوں کی طرح، لیکن آج وہ آبادیاں ویران دلوں کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ عباس تابش کے اشعار گویا ہمارے حال کی عکاسی ہیں:

ہم جڑے رہتے تھے آباد مکانوں کی طرح
اب یہ باتیں ہمیں لگتی ہیں فسانوں کی طرح

یہ کہنا ہرگز مقصود نہیں کہ خواب مت دیکھیں، خواہشات کو دبائیں یا ترقی کی دوڑ میں شامل نہ ہوں۔ خواب زندگی کا حسن ہیں اور خواہشات ہی انسان کو آگے بڑھنے پر مجبور کرتی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا خواب دیکھتے وقت ہمیں انسانیت بھول جانی چاہیے؟ کیا ترقی کے سفر میں ہمیں دوسروں کو روند کر گزرنا لازمی ہے؟

بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے رویے معاشرے کے ہر شعبے میں ایک جیسے ہو گئے ہیں۔

ملازمت میں اپنے ساتھی کی ترقی دیکھ کر خوش ہونے کے بجائے اسے نیچا دکھانے کے راستے تلاش کیے جاتے ہیں۔

کاروبار میں ایمانداری کے بجائے فراڈ، جھوٹ اور غیر ضروری منافع خوری عام ہے۔

سیاست میں خدمتِ عوام کا نعرہ لگایا ضرور جاتا ہے مگر اصل ہدف ذاتی مفاد اور طاقت کا حصول رہتا ہے۔

حتیٰ کہ روزمرہ تعلقات میں بھی خلوص پیچھے اور مفاد آگے دکھائی دیتا ہے۔

یوں لگتا ہے جیسے معاشرے کا تانا بانا "مفاد" کے دھاگے سے بن رہا ہے اور اس میں انسانیت کا رنگ مدھم پڑتا جا رہا ہے۔ محبت، ایثار، قربانی اور خلوص جیسے الفاظ کتابی باتیں لگتے ہیں۔

لیکن ہمیں سوچنا ہوگا کہ یہ سب کب تک چلے گا؟ ہم کب تک اپنی خواہشات کے پیچھے اپنی فطرت اور انسانیت کو قربان کرتے رہیں گے؟ بڑے بڑے محلات، برانڈز، گاڑیاں اور طاقت وقتی خوشی تو دے سکتے ہیں لیکن دائمی سکون نہیں۔ سکون ہمیشہ انسان سے انسان کے رشتے میں، باہمی تعاون میں اور دل کی نرمی میں ملتا ہے۔

یہ کالم لکھتے ہوئے ذہن بار بار ایک ہی سوال پر ٹھہر جاتا ہے: کیا واقعی ہم نے زندگی کے اصل معنی کھو دیے ہیں؟

اگر ہمیں ایک بہتر معاشرہ بنانا ہے تو ہمیں اپنی سوچ اور رویوں کو بدلنا ہوگا۔ ہم ترقی کریں لیکن انسانیت کے دائرے میں رہ کر۔ ہم خواب دیکھیں لیکن دوسروں کو روند کر نہیں بلکہ ساتھ لے کر۔ ہم کامیابی حاصل کریں لیکن اس کامیابی میں دوسروں کی خوشیاں بھی شامل ہوں۔

اصل سوال یہ نہیں ہے کہ ہم نے کتنا کمایا، کتنے محلات بنا لیے یا کتنی شہرت حاصل کر لی۔ اصل سوال یہ ہے کہ ہمارے وجود سے کسی کا بوجھ ہلکا ہوا یا نہیں، ہماری وجہ سے کسی کے چہرے پر مسکراہٹ آئی یا نہیں اور ہماری زندگی نے کسی دوسرے انسان کے دل کو سہارا دیا یا نہیں۔ دولت اور طاقت کے نشے میں ڈوبا ہوا معاشرہ کبھی پائیدار خوشی نہیں پا سکتا، لیکن انسانیت سے جڑا ہوا معاشرہ ہمیشہ آباد رہتا ہے۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہم مفاد پرستی کے اندھیروں میں ڈوبتے رہیں یا انسانیت کے چراغ جلا کر اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کو منور کریں۔

دنیا میں سب سے انمول چیز "انسان" ہے۔ اگر ہم انسان کو ہی کھو بیٹھے تو باقی سب کچھ بے معنی ہے۔

اللہ کریم ہم سب کو اخلاص، محبت اور نیکی پر جمع رکھے۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam