Ikhlaqi Inhatat Aur Hum Sab Ki Munafiqat
اخلاقی انحطاط اور ہم سب کی منافقت

ہم ایک ایسے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جہاں الفاظ کی چمک دھمک اور لب و لہجے کی جادوگری کو ہی سچ سمجھا جاتا ہے اور کردار، خلوص اور نیت کی پختگی کو کوئی دیکھنے، جانچنے یا پرکھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا۔ یہاں وعظ کرنے والے، موٹیویشنل سپیکر، مذہبی رہنما، سوشل ایکٹیوسٹ اور دانشور سب "تاثیر" کی بات تو کرتے ہیں، مگر خود "تاثیر" سے خالی ہیں۔
میرا اپنا ذاتی تجربہ ہے کہ ہمیں جیسے جیسے کسی شخصیت کے قریب ہونے کا موقع ملتا ہے، اُس کی پرتیں کھلتی جاتی ہیں۔ جنہیں دور سے دیکھ کر ہم نیک، بامروت اور علم کا مینار سمجھتے ہیں، قریب سے دیکھیں تو وہ محض نام و نمود، مالی منفعت اور خود ستائشی کے مجسمے نکلتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو سٹیج پر، کیمرے کے سامنے اور سوشل میڈیا پر عاجزی، تحقیق اور دلیل کی بات کرتے ہیں، لیکن ذرا سا کوئی ناپسندیدہ جملہ سنیں، کوئی رائے مختلف ہو، یا مزاج پر گراں گزرے تو وہ اس قدر شدت سے رد عمل دیتے ہیں جیسے نہ کوئی تعلق تھا، نہ کوئی پہچان۔
ایسے لوگ خود کو عقلِ کل سمجھتے ہیں۔ ان کے لہجے، بات چیت، رویے اور فیصلے اس طرح ہوتے ہیں جیسے انہوں نے حقِ ہدایت کا ٹھیکہ لے رکھا ہو۔ جس کسی کو تھوڑی سی پہچان یا شہرت مل جائے، اس کے مزاج فوراً آسمان پر چڑھ جاتے ہیں۔ وہ نہ صرف تنقید سے بالاتر ہو جاتے ہیں بلکہ اپنے اردگرد موجود ان مخلص لوگوں کو بھی فراموش کر دیتے ہیں جو خالصتاً محبت، اخلاص اور خیر خواہی کے جذبے سے جُڑے ہوتے ہیں۔
راقم جیسے لوگ، جن کا تعلق کسی ذاتی فائدے، شہرت یا مطلب سے نہیں بلکہ صرف سچائی، نیکی اور محبت کی بنیاد پر ہوتا ہے، ایسے رویوں سے شدید طور پر مجروح ہوتے ہیں۔ ان کے لیے دل یہ چاہتا ہے کہ کاش کسی سے کوئی تعلق ہی نہ رکھا جائے، جب ہر طرف مطلب پرستی، موقع پرستی اور دنیاوی مفادات کا کھیل کھیلا جا رہا ہو۔
کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ ہماری تربیت لفظوں کے ذریعے ہوئی ہے، کردار کے ذریعے نہیں۔ ہمیں الفاظ بولنا آ گئے، لیکن ان پر جینا نہیں آیا۔ ہم نے سیکھ لیا کہ "خوش اخلاقی" کیا ہوتی ہے، مگر اپنانا بھول گئے کہ "اخلاق" اصل میں عمل کا نام ہے، نہ کہ فقط باتوں کا۔
قرآن کہتا ہے: "اے لوگو جو ایمان لائے ہو، وہ بات کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ بات ہے کہ تم وہ کہو جو تم کرتے نہیں"۔ (سورۃ الصف، آیت 2-3 کا مفہوم)
یہی بات ایک حدیث مبارکہ میں رسولِ اکرم ﷺ نے یوں ارشاد فرمائی: "قیامت کے دن بدترین شخص وہ ہوگا جو لوگوں کو نیکی کی تلقین کرے اور خود عمل نہ کرے"۔ (صحیح بخاری)
اگر ہم اپنے اردگرد کے مبلغین، مقررین اور اصلاح کے دعوے داروں کو دیکھیں، تو اکثر ہمیں یہی حدیث ان پر منطبق ہوتی دکھائی دے گی۔ آج لوگوں نے دین کو، اخلاقیات کو، حتیٰ کہ انسانیت کو بھی ایک "برانڈ" بنا دیا ہے۔ جہاں جتنا فائدہ ہو، وہاں اتنی دینداری، اتنی محبت، اتنی شفقت اور اتنا خلوص۔
بدقسمتی سے منافقت ہمارے رویّوں میں اس قدر سرایت کر چکی ہے کہ اب ہمیں اس کی بو بھی نہیں آتی۔ دل میں بغض رکھ کر زبان سے دعا دی جاتی ہے۔ حسد کے مارے رشتے نبھائے جاتے ہیں۔ مسکرا کر گلے لگنے والوں کے دل میں خنجر ہوتے ہیں اور سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس دو رخی کو ہم "سیاست" یا "مصلحت" کا نام دے کر خود کو معصوم ثابت کرتے ہیں۔
ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب امانت دی جائے تو خیانت کرے"۔ (صحیح بخاری و مسلم)
یہ حدیث آج کے نام نہاد "سوشل، مذہبی و فکری رہنماؤں" کے آئینے کی طرح ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ان لوگوں نے نہ صرف خود کو دھوکہ دیا ہے بلکہ معاشرے کے سادہ دل لوگوں کو بھی اپنی ظاہری چمک سے متاثر کرکے گمراہی میں دھکیل دیا ہے۔
یہ وقت ہے خود احتسابی کا۔ ہر فرد کو یہ سوچنا ہوگا کہ: کیا ہم واقعی خالص نیت سے بات کرتے ہیں؟ کیا ہم دوسروں کو وہی دیتے ہیں جو اپنے لیے پسند کرتے ہیں؟ کیا ہمارا رویہ ہمارے الفاظ سے میل کھاتا ہے؟
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے: "بیشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے"۔ (سورۃ الرعد، آیت 11 کا مفہوم)
لہٰذا، اگر ہم تبدیلی چاہتے ہیں تو وہ تقریروں، سوشل میڈیا پوسٹوں یا وقتی ترغیب سے نہیں آئے گی۔ تبدیلی تب آئے گی جب ہر فرد اپنے اندر جھانکے گا، اپنی نیت کو پرکھے گا اور اپنی زبان و عمل کو ایک کر دے گا۔ تب جا کر ہم وہ معاشرہ بنا سکتے ہیں جہاں اخلاص ہو، سچائی ہو اور کردار ہو۔

