Challan Economy Aur Riyasti Zimmedari Ki Gumshudgi
چالان اکانومی اور ریاستی ذمہ داری کی گمشدگی

پنجاب حکومت کی نئی ٹریفک پالیسی گزشتہ چند ہفتوں سے صوبے بھر میں شدید بحث کا باعث بنی ہوئی ہے۔ حکومتی دعووں کے مطابق سخت قوانین اور بھاری جرمانے ٹریفک نظم و ضبط کو بہتر بنائیں گے اور شہری شعور میں اضافہ ہوگا۔ اصولی طور پر یہ بات درست ہے کہ قوانین کے بغیر معاشرے ترقی نہیں کرتے۔ مگر مسئلہ یہاں قوانین کا نہیں، ان کے یکطرفہ اطلاق اور غیر متوازن حکمتِ عملی کا ہے۔ جب ریاست قوانین تو فرسٹ ورلڈ کے اٹھاتی ہے مگر سہولیات تھرڈ ورلڈ جتنی بھی فراہم نہیں کر پاتی تو پھر قانون، اصلاح کی بجائے، دباؤ اور مایوسی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
ہمارے ملک میں، بدقسمتی سے، ابھی تک بنیادی سہولیات، تعلیم، صحت، روزگار، ٹرانسپورٹ، پارکنگ، لین مارکنگ اور ٹریفک انجینئرنگ، اپنی ناپیدگی کی انتہا کو چھو رہی ہیں۔ اس ماحول میں اچانک سخت قانون نافذ کر دینا اصلاحات نہیں کہلاتا بلکہ چالان اکانومی کہلاتا ہے، جس کے ذریعے معیشت کا بوجھ پھر وہی غریب اور مجبور شہری برداشت کرتے ہیں جو پہلے ہی اپنے وجود کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
اصل سوال یہ ہے: کیا ٹریفک قوانین نئے ہیں؟
نہیں۔ یہ قوانین برسوں سے موجود ہیں۔
نیا صرف یہ ہے کہ ان قوانین کا نفاذ ایک دم سے اتنی سختی کے ساتھ کر دیا گیا ہے کہ شہریوں کو نہ متبادل ملا، نہ سہولت، نہ وقت، نہ تربیت۔
یہاں لاکھوں لوگ ایسے ہیں جن کے گھر میں ایک ہی موٹر سائیکل ہے۔ وہ اسی پر اپنی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو دفاتر، کالجز اور اسپتال لے جاتے ہیں۔ ان کے پاس رکشا یا ڈرائیور رکھنے کی استطاعت نہیں۔ سرکاری پبلک ٹرانسپورٹ کا وجود برائے نام ہے۔ شہروں میں مقامی ٹرانسپورٹ کا نظام یا تو غیر محفوظ ہے یا غیر موجود۔ ایسی صورت میں اگر کوئی 18 سال کا نوجوان لائسنس نہ ہونے کے باوجود اپنی بہن کو یونیورسٹی لے جائے تو کیا حکومت کے پاس اس کے لیے کوئی متبادل آپشن موجود ہے؟ بدقسمتی سے جواب نفی میں ہے۔
قانون ضرور سخت ہونا چاہیے مگر بغیر متبادل کے سختی ظلم بن جاتی ہے۔
قانون کا مقصد آسانی ہے، اذیت نہیں اور جب قانون صرف کمزور پر لاگو ہو، طاقتور کے لیے نرم ہو، تو وہ اصلاح نہیں، استحصال کہلاتا ہے۔
اس سارے منظرنامے میں ایک اور بنیادی پہلو مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے، سیاسی نمائندوں کی شمولیت۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ بیوروکریسی اکثر زمینی مسائل کا ادراک نہیں رکھتی۔ وہ ایک ضلع سے دوسرے ضلع میں منتقل ہونے والی عارضی قوت ہے، جسے نہ مقامی مسائل کی گہرائی کا علم ہوتا ہے اور نہ عوامی نفسیات کا۔
اس کے مقابلے میں سیاسی نمائندے گراس روٹ سے اٹھتے ہیں، عوام سے روزانہ کی بنیاد پر ملتے ہیں، ان کی مشکلات کو سمجھتے ہیں اور عملی حل بھی رکھتے ہیں۔ اگر پالیسی سازی میں منتخب نمائندوں کو شامل ہی نہ کیا جائے تو قوانین ہمیشہ کھوکھلے اور زمینی حقیقت سے کٹے رہیں گے۔
ٹریفک کا بڑا مسئلہ قانون نہیں بلکہ بدانتظامی ہے۔
سڑکیں ٹوٹی ہوئی، لین مارکنگ غائب، سگنلز خراب، پارکنگ کا کوئی نظام نہیں، تجاوزات ہر سڑک کا حصہ بن چکی ہیں اور ٹریفک پولیس کی تربیت یا رویے پر سوالات آئے روز سامنے آتے ہیں۔ ایسے ماحول میں اگر حکومت تمام توجہ صرف جرمانے بڑھانے پر مرکوز کر دے تو یہ اصلاح نہیں، عوامی استحصال بن جاتا ہے۔
مزید افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ریاستی مشینری کی ترجیحات آج کل عجیب رخ اختیار کر چکی ہیں۔ درستگی کم، دباؤ زیادہ، سہولت کم، سختی زیادہ، اصلاح کم، سزا زیادہ۔ یہ وہ خوفناک رجحان ہے جس کے نتائج کسی بھی وقت شدید معاشرتی عدم برداشت کی شکل میں سامنے آ سکتے ہیں۔ معاشرے میں گہری بے چینی دکھائی دے رہی ہے، جو کسی بھی وقت پھٹ سکتی ہے۔
حل کیا ہے؟
حل بہت سادہ ہے:
قوانین سخت کریں، ضرور کریں، لیکن پہلے ڈھانچہ درست کریں۔
پبلک ٹرانسپورٹ مہیا کریں۔
پارکنگ اسٹرکچر بنائیں۔
لین مارکنگ درست کریں۔
ٹریفک پولیس کو تربیت دیں۔
اور سب سے بڑھ کر، منتخب نمائندوں کو بیوروکریسی کے ساتھ بٹھا کر پالیسی بنائیں۔
قانون تبھی مؤثر ہوتا ہے جب اس کے ساتھ سہولت، تربیت، انسانی رویہ اور زمینی حقیقت کا ادراک بھی شامل ہو۔ ریاستیں جرمانوں سے نہیں، نظام سے چلتی ہیں۔ اگر حکومت واقعی ٹریفک نظام بہتر بنانا چاہتی ہے تو اسے سب سے پہلے انسان کو مرکز بنانا ہوگا۔ ورنہ سخت قانون بھی اسی طرح پاش پاش ہو جائیں گے جیسے اب تک بہت سے قوانین بغیر سہولت اور انصاف کے بوجھ تلے دب کر ختم ہو چکے ہیں۔
وقت ہے کہ عقل کے ناخن لے لیے جائیں۔ اس سے پہلے کہ یہ معاشرہ بے بسی، ناانصافی اور یکطرفہ سختی کے بوجھ سے پھٹ پڑے اور سب کچھ بہا لے جائے۔ اللہ کریم حکمرانوں اور ارباب اختیار و اقتدار کو عقل سلیم عطا فرمائے۔

