Budget 2025, Qurbani Phir Tankhwadar Tabqe Ki?
بجٹ 2025، قربانی پھر تنخواہ دار طبقے کی؟

جون کا مہینہ پاکستان میں ہمیشہ سے ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ گرمی کی شدت کے ساتھ ساتھ ایک اور تپش ہر سال بڑھ جاتی ہے اور وہ ہے بجٹ کی۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی حکومت نے "تاریخی" بجٹ پیش کرنے کے دعوے کیے ہیں۔ مگر یہ تاریخ کس کے لیے بنائی جا رہی ہے؟ اشرافیہ کے لیے یا اس قوم کے ان گمنام سپاہیوں کے لیے جو دفتر، اسکول، اسپتال یا بینک کی نوکری کے ذریعے ریاستی ڈھانچے کو اپنے خون پسینے سے سہارا دے رہے ہیں؟ سچ یہ ہے کہ پاکستان میں بجٹ اب صرف ایک مالیاتی دستاویز نہیں رہا، یہ تنخواہ دار طبقے کے لیے ایک معاشی عدالتی فیصلہ بن چکا ہے، جس میں ہر بار اسے ملزم ٹھہرایا جاتا ہے اور سزا سنائی جاتی ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک کے تمام معاشی مسائل کا بوجھ ایک ہی طبقے کے کندھوں پر ڈال دیا گیا ہے اور وہ ہے تنخواہ دار طبقہ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو قانون کی پابندی کرتے ہیں، ہر ماہ تنخواہ سے پہلے ہی ان کا ٹیکس منہا کر لیا جاتا ہے اور پھر باقی پیسوں سے وہ اپنا گھر چلاتے ہیں، بچوں کی تعلیم کا بندوبست کرتے ہیں، کرایہ، بجلی، گیس، انٹرنیٹ اور دیگر ضروریات زندگی کے اخراجات نبھاتے ہیں۔ مگر ہر سال بجٹ آتا ہے اور انہی پر ایک نئی ضرب لگتی ہے۔
یہی وہ طبقہ ہے جو سب سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے اور سب سے کم سہولت حاصل کرتا ہے۔ وہ اسپتال جائے تو وہاں سہولت نہیں، اسکول میں بچے داخل کروائے تو یا فیسیں آسمان کو چھو رہی ہوتی ہیں یا تعلیمی معیار زمین بوس ہوتا ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا عالم یہ ہے کہ ایک عام سرکاری ملازم اگر ذاتی سواری نہ رکھتا ہو تو دفتر پہنچنے تک اس کی ہمت جواب دے چکی ہوتی ہے۔
بجٹ پیش کرتے ہوئے حکومتی نمائندگان دعویٰ کرتے ہیں کہ مہنگائی میں کمی آ رہی ہے، معیشت سنبھل رہی ہے اور آمدنی بڑھ رہی ہے۔ لیکن مارکیٹ میں جا کر دال، سبزی، گوشت یا دودھ خریدنا ہو تو معلوم ہوتا ہے کہ شاید حکمران اور عوام دو مختلف ریاستوں میں رہ رہے ہیں۔ جب آلو 120 روپے، ٹماٹر 180 روپے، دودھ 200 روپے اور آٹا 160 روپے کلو ہو جائے، تو پھر ترقی کا مطلب صرف اشرافیہ کے لیے ہے، نہ کہ عوام کے لیے۔
حکومتی اخراجات میں کمی کا ذکر صرف اخبارات میں نظر آتا ہے، عملاً ایوانِ وزیر اعظم سے لے کر ایم این اے کے گھروں تک اللے تللے جاری و ساری ہیں۔ سرکاری افسران کو مفت بجلی، گیس، سرکاری گاڑیاں، ڈرائیور، سیکورٹی، رہائش، میڈیکل اور کیا کچھ نہیں دیا جا رہا۔ دوسری طرف وہ سرکاری ملازم جس نے زندگی بھر دیانتداری سے نوکری کی، اس کے لیے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی پنشن، علاج اور بنیادی حقوق تک رسائی ایک خواب بن چکی ہے۔
تنخواہ دار طبقے کے لیے سب کچھ ہے: ٹیکس، کٹوتی، قربانی، احتساب، مگر سہولت؟ وہ نہیں اور اگر زبان کھولے تو کہا جاتا ہے کہ "قومی مفاد میں برداشت کریں"۔ قومی مفاد صرف ایک مڈل کلاس سرکاری ملازم کی قربانی سے کیوں وابستہ ہے؟ کیا قومی مفاد میں اشرافیہ کی مراعات کم کرنا شامل نہیں؟ کیا قومی مفاد میں بیوروکریسی اور سرمایہ دار طبقے سے ٹیکس لینا قابلِ عمل نہیں؟ کیا قومی مفاد میں وہ زمین دار، وہ پراپرٹی ٹائیکون اور وہ صنعت کار بھی نہیں آتے جو ہر سال اربوں کی آمدنی چھپاتے ہیں اور حکومت سے ٹیکس چھوٹ بھی لیتے ہیں؟
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں باقاعدگی سے ٹیکس دینے والوں میں سب سے نمایاں طبقہ تنخواہ دار ہے۔ FBR کی رپورٹس کے مطابق، انکم ٹیکس کا بڑا حصہ انہی افراد سے حاصل ہوتا ہے جو اپنی تنخواہ سے ٹیکس منہا کرواتے ہیں۔ مگر جواب میں ان کو نہ صحت کی سہولت، نہ تعلیم، نہ رہائش، نہ ہی کوئی ریلیف دیا جاتا ہے۔
اس معاشی بدانتظامی کا ایک اور المیہ یہ ہے کہ پالیسیوں میں تسلسل کا فقدان ہے۔ ہر حکومت ایک نیا تجربہ لے کر آتی ہے، پرانے فیصلوں کو مسترد کرکے نئے راستے پر چلتی ہے اور نتیجتاً ایک ایسا چکر بنتا ہے جس میں عام آدمی کی زندگی دن بہ دن مشکل سے مشکل تر ہوتی جاتی ہے۔ آج پاکستان میں وہ نوجوان جو کسی سرکاری محکمے میں نوکری کرتا ہے، اپنے ماں باپ کی طرح مطمئن زندگی گزارنے کا خواب تک نہیں دیکھ سکتا۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ نہ اس کی تنخواہ افراط زر کا مقابلہ کر سکتی ہے، نہ سرکاری سہولتیں اس کی دسترس میں ہیں اور نہ ہی اس کے لیے کوئی امید کی کرن باقی رہ گئی ہے۔
میڈیا پر بھی ایسی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کی اجازت نہیں۔ ہر چینل ایک خاص بیانیہ تھما کر دیا گیا ہے اور حقیقی مسائل کو پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے۔ اگر کوئی صحافی یا اینکر عوام کی مشکلات پر بات کرے، تو یا تو اسے فارغ کر دیا جاتا ہے یا "قومی مفاد" کے خلاف قرار دے دیا جاتا ہے۔
معیشت کی بربادی صرف مہنگائی سے نہیں ہوتی، ناانصافی سے بھی ہوتی ہے۔ جب عوام دیکھتے ہیں کہ ایک طرف وہ ایمانداری سے ٹیکس دے کر بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں اور دوسری طرف وہ لوگ جو ٹیکس چوری کرتے ہیں، انہیں ہی ہر بجٹ میں ریلیف دیا جاتا ہے، تو اس نظام پر اعتماد ٹوٹنے لگتا ہے۔
اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ پاکستان معاشی ترقی کرے، مہنگائی کم ہو اور ایک متوازن سماج قائم ہو، تو پھر ہمیں سب سے پہلے تنخواہ دار طبقے کے ساتھ انصاف کرنا ہوگا۔ انہیں محض آسان ہدف سمجھ کر قربانی کا بکرا نہ بنایا جائے۔ ان کی محنت، دیانتداری اور ذمہ داری کا صلہ یہ نہیں کہ ان پر مزید بوجھ ڈالا جائے، بلکہ انہیں وہ سہولت دی جائے جس کا وہ قانونی اور اخلاقی حق رکھتے ہیں۔
ریاست مدینہ کے دعوے اگر واقعی دل سے کیے گئے ہیں تو ان کا آغاز مظلوم اور پسے ہوئے طبقے سے ہونا چاہیے اور پاکستان کا سب سے خاموش، سب سے مظلوم اور سب سے زیادہ نچوڑا جانے والا طبقہ تنخواہ دار ملازمین کا ہے۔
خدارا، ان پر رحم کریں۔ ان کی آہیں صرف کالموں میں نہ رہ جائیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نظام کو دھکا دے کر چلا رہے ہیں، انہیں مزید دھکے نہ دیجیے۔

