Sabr Ka Paimana Labrez Ho Chuka
صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا
نائن الیون اور نائن فائیو سانحات میں فرق صرف اتنا ہے کہ نائن الیون کے کردار یہودی تھے اور نائن فائیو کے کردار یہودیوں کے غلام، نائن الیوں کی آڑ میں یہودیوں نے دنیائے اسلام کو نشانے پر لیا تھا جبکہ سرزمین پاک پر ظلم و جبر کی حکمرانی کا دور رجیم چینج سے شروع ہوا، جس کے تحفظ کے لئے نظام عدل یہودی سوچ کا غلام ہے۔
9 مئی سانحہ کے الزام میں 51، معصوم افراد کو ناکردہ جرم میں 5-5 سال کی سزا دی گئی ہے، اگر کسی کو یہ خوش فہمی ہے کہ تحریکِ انصاف کے قائد عمران خان اور دوسری گرفتار قیادت کو جیلوں سے رہاکر دیا جائے گا تو یہ خوش فہمی کے ساتھ سوچنے والے کہ کی غلط فہمی ہے۔ ایسی ہی غلط فہمی ذو الفقار علی بھٹو کے چاہنے والوں کو بھی تھی جو بے بس تھے خود کو آگ لگا رہے تھے اور جو دوسری قیادت کے دعویدار تھے، وہ یا تو ضیاءکے مارشل لاء سے خوف زدہ تھے یا اخبارات کی سرخیوں میں دعویداری کا تماشہ کھیل رہے تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو کو بھی یہ پیغام تھا، دربارِ یہود میں سر کو جھکا دو اور دنیا میں جہاں چاہو، جا کر چھین کی زندگی گزار لیکن بھٹو نے کہاتھا، خیرات کی زندگی قومی غدار جیتے ہیں، میری زندگی خدا کی امانت ہے میں اپنے دیس میں دفن ہونے کو ترجیح دوں گا اور عظیم ذوالفقار علی بھٹو پاکستان اور پاکستانیوں سے محبت میں تختہءدار پر جھول گئے۔
آج بھی وہ سٹیج ڈرامہ پاکستانی دیکھ رہے ہیں۔ جس میں کپتان کے خوف سے پاکستان کی ناموس سے کھیلا جارہا ہے، آج عمران خان سے وہ ہی کچھ کہا جارہا ہے، جو شہید ذوالفقار علی بھٹو سے کہا گیا تھا اور پاکستان کا کپتان وہ ہی جواب دے رہا ہے جو شہید ذوالفقار علی بھٹو نے جابر سلطان کو دیا تھا۔
لیکن جابر حکمران شاید بھول گئے ہیں کہ موسم بدل بھی جایا کرتے ہیں۔
خون پھر خون ہے معصوم کا بھی کھولتا ہے
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو حق بولتا ہے
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں، جسٹس سمن رفعت امتیاز، جسٹس بابر ستار، جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس سرداراعجاز اسحاق خان اور جسٹس ارباب محمد طاہر نے سپریم جوڈیشنل کو خط لکھا کہ بہت برداشت کیا، ظلم و جبر کی بھی کوئی حد ہوتی ہے، ہم پر عدل و انصاف کا خون کرنے کے لئے دباؤ ہے، ہمارے رشتہ داروں کو اغواءکیا جارہا ہے، ان پر تشدد کیا جا رہا ہے، ہمارے گھروں کی خفیہ نگرانی کی جارہی ہے، ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے!
لیکن سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اپنے قبیلے کی سچائی کا احساس نہیں ہوا اور وہ نام نہاد وزیرِ اعظم شہباز شریف کے در دولت پر حاضر ہوئے، دونوں نے مل کر صدائے حق کو دبانے کے لئے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں ایک رکنی انکوئری کمیشن بنا کر کہا کہ اداروں پر ججوں کے الزامات کی تحقیقات کی جائیں کہ الزامات درست ہیں یا جج صاحبان جھوٹ بھول رہے ہیں، لیکن سپریم کورٹ، اور خفیہ ادارے بھول گئے ہیں کہ آج وہ دور نہیں جس میں خلیل خان فاختے اڑایا کرتے تھے۔
پاکستان کالا کوٹ حق اور انصاف کی حکمرانی کے لئے میدان میں آ گیا ہے، پاکستان بھر کے 300، وکلاء کے دباؤ پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لے لیا ہے، وکلا کا مطالبہ ہے کہ عوامی قومی مفاد اور بنیادی حقوق کے معاملے پر سپریم کورٹ کے تمام دستیاب ججز پر مشتمل بینچ تشکیل دے کر عدالتی کاروائی کو عوام کے لئے براہ راست دکھایا جائے، اس لئے کہ جب ججز کو منظم طریقے سے حراساں کیا جاتا ہے تو پوارا نظامِ عدل داغ دار ہوتا ہے، اگر ایک جج قومی نظام عدل میں بلا خوف قانونی اور آئینی تقاضوں کے پیشِ نظر کوئی فیصلہ نہیں دے سکتا تو نہ صرف جج بلکہ عدالتوں میں پیش ہونے والے وکلاءکا وقار بھی مجروح ہوتا ہے۔
وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ اگر کسی ہائی کورٹ کے آٹھ میں سے چھ جج برسرِ عام تحریری طور پر متفق ہوں کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کھلی مداخلت کے سبب عدلیہ انصاف نہیں دے سکتی تو اس واقعے کو پاکستانی عدلیہ کا نائن الیون سمجھنا چاہیے۔ یہ سب اچانک سے نہیں ہوا۔ اس سے پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج شوکت عزیز صدیقی نے دو ہزار اٹھارہ میں بالائے عدالت مداخلت سے خبردار کرنے کا بگل بجایا۔ تب ان کے ساتھی ججوں سمیت بہت سوں نے جسٹس صدیقی کو ایک جذباتی انسان جانا اور ان کے عائد کردہ سنگین الزامات کی چھان پھٹک کے لیے عدالتِ عظمی نے کوئی ازخود نوٹس لینے یا کمیشن بنانے کی بجائے الٹا جسٹس صدیقی کو فارغ کر دیا۔ اب جبکہ جسٹس صدیقی کو بے قصور قرار دے کے ریٹائرمنٹ کی تمام مراعات بحال کر دی گئی ہیں اور اس فیصلے سے حوصلہ پا کے اسی اسلام آباد ہائی کورٹ کے 80 فیصد ججوں نے کم و بیش وہی الزامات دہرائے ہیں جو جسٹس صدیقی نے چھ برس پہلے لگائے تھے۔
قوم کو قوی امید ہے کہ تمام ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل گرینڈ جرگہ، سر جوڑ تحقیقات کرے گا کہ آیا انٹیلی جینس ایجنسیوں کا دباؤ محض ایک ہائی کورٹ پر رہا ہے یا اس دباؤ کی جڑیں زیریں سے اعلی عدلیہ تک ہر جگہ پھیلی ہوئی ہیں۔