Mojuda Nizam e Hukmrani Se Elan e Bhagwat Hai
مو جودہ نظام حکمرانی سے اعلانِ بغاوت ہے
پاکستان تحریکِ انصاف نے 26 نومبر کو اسلام آباد کی بجائے راولپنڈی میں جلسہ کیا، اس لئے کہ اسلام آباد حکومت نے اسلام آباد کے داخلی راستوں پر کنٹینر لگا کر خود کو اسلام آباد کی عوام کے ساتھ قلعہ بند کر دیا تھا اور عمران خان کے ہیلی کاپٹر کو اسلام آباد میں اترنے کی اجازت بھی نہیں ملی، یہ ہی وجہ تھی کہ پہلے تو تحریک انصاف اپنے اسلام آباد داخل ہونے کے اعلان سے پیچھے ہٹی۔
اس کے بعد سابق حکمران جماعت کو فیض آباد کا مقام بھی حاصل نہ ہو سکا، ان کے جلسے کو کڑی شرائط کے ساتھ راولپنڈی کے سکستھ روڈ کی طرف دھکیل دیا گیا۔ عدالت کا بھی حکم تھا کہ جلسہ کرنا ہے۔ دھرنا نہیں دینا، عمران خان نے راولپنڈی کے تاریخی جلسہ عام میں جو کہا شاید بہت سارے سیاسی ماہرین کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ یہ عمران خان کا آخری بال یا آخری باونسر نہیں ہے۔
وہ کھلاڑی ہے، جانتا ہے کہ مقابل جتھہ اناڑی ہے۔ عمران خان نے ماڈل ٹاؤن سانحے کے قاتل اور لاشوں پر سیاست کرنے والوں کی تمام خوش فہمیاں دور کرکے ان کے سنہرے خواب خاک کر دیئے، آرمی چیف کی تقرری پر عمران خان کی تائید سے وہ پہلے پریشان تھے۔ دراصل مغرب پرست نہیں جانتے کہ میدان جنگ میں بہترین سپہ سالار وہ ہوتا ہے۔ جو زمینی حالات کو دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے اور حکمت عملی تبدیل کرتا ہے۔
لانگ مارچ کے شرکاء سے خطاب میں انھوں نے کہا کہ ہم بجائے اپنے ملک میں توڑ پھوڑ کریں، اس سے بہتر ہے کہ ہم اس کرپٹ نظام سے باہر نکلیں اور اس سسٹم کا حصہ نہ بنیں، جدھر یہ چور بیٹھ کر ہر روز اپنے اربوں روپے کے کیسز معاف کروا رہے ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ وہ اب اسلام آباد کا رخ نہیں کر رہے ہیں، حالانکہ جب لاکھوں لوگ اسلام آباد جائیں گے تو کوئی نہیں روک سکے گا، لیکن فیصلہ کررہا ہوں کہ اسلام آ باد نہیں جانا، بلکہ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم ساری اسمبلیوں سے نکل جائیں۔
عمران خان نے واضح طور پر کہا کہ ہم اتحادیوں کے ساتھ مشاورت کر کے صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہو جائیں گے، ہم اسمبلیاں نہیں توڑیں گے، بلکہ مغرب کے یاروں کی حکمرانی کو مفلوج کر دیں گے، عمران خان نے جو کہا غلط نہیں کہا۔ اس لئے کہ صوبائی اسمبلیوں میں ممبران کی کل تعداد 859 ہے۔
جن میں 563 اراکین اسمبلی تحریکِ انصاف اور اتحادیوں کے ہیں، امپورٹڈ کی صرف 296 ممبرز ہیں، 563 خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات ناممکن ہو جائیں گے۔ عمران خان کے لئے سب سے بڑا مسئلہ باجوہ تھے جو الوداع گئے ہیں، افواج پاکستان کے نئے سالار قومی سیاست کو بخوبی جان گئے ہیں کہ وہ دن گئے، جب فوج کے احترام میں ہر زبان خاموش تھی اب تالی دونوں ہاتھوں سے بجے گی۔
عوام کو عزت ملے گی تو عوام اسی طرح احترام دیں گے۔ جو جنگ ستمبر سے پہلے اور بعد میں دیتے رہے ہیں، لیکن ایک پاکستان میں دو پاکستان اور دو قانون عوام ہر گز قبول نہیں کریں گے۔ سابق وزیرِ اعظم میاں محمد شریف کے جرائم اپنی جگہ، لیکن اگر اس نے کہا تھا کہ مجھے کیوں نکالا، تو میاں صاحب نے غلط نہیں کہا تھا، وہ تختِ حکمرانی پر اختیار مانگ رہے تھے۔
انہیں اپنے دیس میں فوج کی غلامی قبول نہیں تھی، تخت اقتدار سے گرائے جانے کی وجہ یہ ہی جرم تھا۔ پاکستان کی بڑی عدالت نے یہ کہہ کر تختِ اقتدار سے گرایا کہ تم صادق اور امین نہیں ہو، اگر عدالت کا یہ کہنا درست تھا تو عمران کے لئے اسی عدالت نے کہا تھا، تم صادق اور امین ہو، اگر عمران خان صادق اور امین تھے تو تختِ اقدر اقتدار سے کیوں گرایا، لیکن مسئلہ صادق اور امین یا خائن کا نہیں۔
مسلہ ہے بوٹوں کی بادشاہی کا۔ پاکستان میں سر جھکا کر حکمرانی کرو گے تو سب اچھا ہوگا، سر اٹھاؤ گے، تو نہ صرف اقتدار سے جاؤ گے، بلکہ جان سے بھی جاؤ گے، شاعر نے بہت عرصہ پہلے کہا تھا، چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے، نواز شریف نے فوج کی غلامی کو قبول نہیں کیا اور وزیراعظم عمران خان نے باجوہ سے نہ صرف خود مختاری مانگی بلکہ امریکہ کو بھی آنکھ دکھائی۔
اس طرح اس نے دو جرم کیئے تھے، اس جرم میں وہ پہلے اقتدار سے گرائے گئے اور پھر جان سے جاتے جاتے بچ گئے ہیں، آگے کیا ہوگا، خدا جانتا ہے۔ لیکن عمران خان نے قوم پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ پاکستان کا بے خوف اور نڈر لیڈر ہے۔ اس لئے قوم اس کے ساتھ کھڑی ہے، تجزیہ نگار ہارون الرشید کہتے ہیں کہ راولپنڈی میں تحریکِ انصاف کے آزادی مارچ کا اجتماع راولپنڈی کی تاریخ کا پہلا بے مثال اجتماع تھا، میں سمجھتا ہوں یہ موجودہ نظام حکمرانی سے اعلانِ بغاوت ہے۔