Khuda Ke Mehboob Bande
خدا کے محبوب بندے
ستائیسویں کی شب! شعور ایمان کی سیرابی، زندگی کی مسرتوں سے سر فرازی اور روز محشر اُمت مصطفےٰؐ کی پہچان کیلئے مبارک شب ہے۔ فرزندانِ اسلام رمضان المبارک اور اس مبارک ماہ کی مبارک شب کا بے چینی سے انتظار کرتے ہیں۔ عاقبت کو سنوارنے کیلئے روزہ دار خالقِ کل کے حضور جھکتے ہیں، روتے ہیں، مانگتے ہیں، دامن گناہ کو دھونے کیلئے اس مبارک شب میں جاگتے اور محبت بھری ایمان افروز محفلیں سجاتے ہیں۔ زندگی میں وہ لمحے بڑے مبارک ہوتے ہیں جب مومن صدقِ دل سے رب کائنات سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں تو اُسی وقت محبت کی ایسی بارش ہوتی ہے جس میں یقین سرسبز و شاداب ہو جاتا ہے۔
میرے واحد جوائی محمد ہمایوں خان، ہما اور لے پالک صاحبزادہ امجد فیروز سعودی عرب میں ہوتے ہیں۔ یہ دونوں جب بھی بیت اللہ شریف یا مسجد ِنبویؐ میں ہوتے ہیں تو اذانِ فجر کے وقت امریکہ میں رات کے 10 بجے ہوتے ہیں۔ یہ دونوں اظہار محبت میں ٹیلیفون پر اذانِ سحر سناتے ہیں (آج اسی لمحے جب میں یہ کہانی لکھ رہا ہوں تو امجد فیروز ادائیگی عمرہ کیلئے بیت اللہ شریف میں تھے۔ اُن کا فون آیا اور میں تصوراتی پرواز میں بیت اللہ شریف پہنچ کر اذانِ سحر سننے لگا۔
فرزندانِ اسلام چہروں پر مسرت کے سہرے سجائے سرِ شام جوک در جوک آ رہے تھے۔ حسن کائنات کی تصاویر بلند و بالا پہاڑوں کے درمیان وادی میں حضرت جی بابا کے دربار میں میلے کا سا سماں تھا۔ دربار عالیہ کے صحن میں بلند و بالا میناروں سے درود و سلام کی گونج میں وادی جھوم رہی تھی۔ اُمت مصطفےٰؐ کے فقیروں نے دربار عالیہ کو رنگین قمقموں میں بڑی خوبصورتی سے سجایا تھا۔
جگ مگ جگ مگ کے ایمان افروز منظر میں دربار عالیہ کی انتظامیہ روزہ داروں کے تعاون سے دربار عالیہ کے صحن میں افطار کیلئے دستر خوان بچھا کر افطاری کے لوازمات رکھتے جا رہے تھے۔ افطاری کا وقت قریب تھا۔ اعتکاف میں تشریف فرما مومن پردوں سے نکل آئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے دن بھر کے بھوکے پیاسے روزہ دار دستر خوان کے اطراف میں بیٹھنے لگے۔
مذہبی عظمت کے علمبر دار صاف ستھرے لباس میں ملبوس ہاتھوں میں تسبیح، زبان پر شکر خدا، شعور میں ذکر مصطفےٰؐ، تصور میں جامِ کوثر، کھجور ہاتھ میں لیے پانی کے پیالے پر نظریں جمائے دین مصطفےٰؐ کے پروانے، آذانِ مغرب کے منتظر، کیا روح پرور منظر تھا؟ اللہ اکبر، اللہ اکبر، اذانِ مغرب وادی میں گونجی، زبانیں دعائے افطار کا ورد کرنے لگیں۔
یا اللہ تیرا شکر ہے، یا اللہ تیری رضا ہے ہماری محبت قبول فرما، ہم تیرے ہی بندے ہیں تجھ ہی سے مانگتے ہیں تو ہی ہمارا رازق ہے، اپنے حبیب کے صدقے ہم پر رحم و کرم فرما۔ دعائیہ کلمات کے اختتام کے ساتھ ہی روزہ افطار ہوا، چہروں پر بہار آ گئی، ہر کوئی ایسا محسوس کر رہا تھا کہ جیسے کسی خاص نعمت سے نوازا گیا ہو۔ نماز مغرب کیلئے جماعت کھڑی ہو گئی۔ ایک امام کی امامت میں حاضرین سر بسجود ہو گئے۔
فرض نماز کی ادائیگی کے ساتھ ہی خادمین دربار نے افطار کیلئے سجے دستر خوان پر سے برتن اُٹھائے، کھانے کیلئے دربار عالیہ کے مخصوص مٹی کی بڑی بڑی رقابیوں میں آلو گوشت شوربے کے ساتھ تندوری روٹی اور پانی کے کٹورے رکھ دئیے گئے۔ نماز سے فارغ ہو کر نمازی دستر خوان پر آئے، چار افراد کیلئے ایک رکابی مخصوص تھی۔ بڑے تحمل اور مذہبی آداب میں روزہ دار جو دن بھر اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے روزے سے تھے، اُن کی بھوک چمک رہی تھی۔
کھانا شروع ہوا محمود و ایاز ایک ہی برتن میں کھا رہے تھے، نہ کوئی امیر تھا نہ کوئی فقیر یہی مومن کی شان ہے۔ اسی میں مذہب سے محبت ہے کسی نے کسی کو نہیں پوچھا تو کون ہے؟ توسیّد ہے، نائی ہے، دھوبی ہے، موچی ہے یا مراثی سب جانتے تھے کہ ایک اللہ کے حضور سجدہ ریز مومن ہیں یہی دین مصطفےٰؐ کی پہچان ہے۔ کھانا ختم ہوا، دستر خوان اُٹھا لیے گئے۔ صفائی کی جا رہی تھی کہ نماز عشاء کیلئے وادی میں آذان گونجی۔ حاضرین نے حسب ضرورت نماز کیلئے تیاری کی اور آ کر صفوں میں بیٹھ گئے۔
آج ستائیسویں کی شب نماز تراویح میں ختم قرآن تھا۔ نماز تراویح میں ختم قرآن اور دعا کے بعد حاضرین میں مٹھائی کی تقسیم کی گئی۔ قرب و جوار کے لوگ گھروں کو جانے لگے اور دور دراز سے آئے ہوئے مہمان اور کچھ مقامی لوگ دربار عالیہ میں روح پرور مناظر سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ دربار سے کچھ فاصلے پر دو بزرگ حسب معمول اپنے گرد موجود لوگوں سے راہِ ہدایت کے موضوع پر مصروف گفتگو تھے۔
حاضرین بڑی توجہ سے دونوں کو باری باری سن رہے تھے۔ اچانک دربار عالیہ کی بجلی بند ہو گئی، ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔ فضاء مشین گنوں کی تھر تھراہٹ سے لرز اُٹھی، افراتفری پھیل گئی لوگ پناہ لینے کیلئے چاند کی مدہم روشنی میں ادھر اُدھر بھاگنے لگے، وہ جانتے تھے کہ یہ کون لوگ ہیں کیا چاہتے ہیں؟ گزشتہ کئی ماہ سے وہ ایسے ہی ماحول میں زندگی جی رہے تھے لیکن اس کے باوجود وہ خوفزدہ نہیں تھے۔
گھروں میں نہیں بیٹھے، درباروں اور مساجد کی ویرانی کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ وہ باجماعت نماز کی ادائیگی کیلئے مساجد بھی جاتے اور درباروں میں بھی اللہ کے پیاروں کیلئے دعائے مغفرت کیلئے آتے۔ اسلحہ برداروں کی آواز گونجی، ہم دربار کو تالے لگا رہے ہیں، ہم نفاذ شریعت کے علمبردار ہیں ہم درباروں میں سجدے نہیں کرنے دیں گے۔ اگر زندگی عزیز ہے تو جتنی جلدی ہو سکے دربار کے احاطے سے باہر چلے جاؤ۔
ہر سو اندھیرا تھا، فلک پر چاند اور ستاروں کی روشنی میں لوگ بڑی تعداد میں اسلحہ برداروں کو دیکھ رہے تھے۔ با برکت شب میں شب بیداری کیلئے آئے ہوئے لوگ سر جھکائے خاموشی سے جانے لگے، اعتکاف میں بیٹھے ہوئے مومن اعتکاف توڑ کر بچشم نم پردوں سے نکل آئے تھے۔ محشر کا سا منظر تھا ہر کوئی جیسے زندگی کا بوجھ لیے جا رہا تھا۔
بڑی پیاری ہے یہ بد بخت زندگی، یہ جانتے ہوئے بھی کہ فانی ہے پھر بھی آخری سانس تک وفا کی اُمید ہوتی ہے، اسلحہ برداروں نے دیکھا دربار سے کچھ فاصلے پر دو افراد دو مخالف سمتوں میں سر بسجود ہیں، ایک کا رُخ کعبے کی طرف اور دوسرے کا مزار حضرت جی بابا کی طرف تھا اسلحہ بردار جلال میں آ گئے۔ دونوں افراد پر دربار کے احاطے میں لاتوں اور گھونسوں کی برسات ہونے لگی۔
وہ بولے جا رہے تھے یہی تو ہم نہیں چاہتے قبروں کو سجدہ کفر ہے، شرک ہے یہ دونوں افراد وہی تھے جن کے گرد کچھ دیر پہلے لوگوں کا مجمع تھا جو راہ ِہدایت کی تبلیغ کر رہے تھے۔ دونوں بزرگ تھے درد سے کراہنے لگے تھے مگر اُن کی زبان پر ایک ہی کلمہ تھا ہر ضرب پر اُن کے منہ سے ایک ہی آواز آتی اللہ اکبر، اللہ اکبر۔ اسلحہ برداروں نے اُنہیں بازوؤں سے پکڑا، گھسیٹتے ہوئے دربار عالیہ کے صدر دروازے تک لائے اور کسی بے جان جانور کی طرح دروازے سے باہر پھینک دیا دونوں بزرگ نڈھال ہوچکے تھے لیکن حوصلہ نہیں ہارے تھے۔
اسلحہ برداروں سے کہنے لگے، ہم جانتے ہیں تم لوگ جو کہہ رہے ہو وہ درست ہے قبروں کو سجدہ شرک ہے، ہم لوگ دربار عالیہ حضرت جی بابا آتے ہیں اُن سے کچھ مانگنے کیلئے نہیں آتے اس لیے کہ وہ ہمیں کیا دے سکتے ہیں وہ تو خود اللہ کے فقیر ہیں اپنی بقا کے محتاج ہیں، محمد مصطفےٰؐ جس کیلئے یہ کائنات بنی ہے اگر وہ اپنی اُمت کی خیر کیلئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں تو ہم کسی اور سے کیا توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ ہمیں کچھ دے سکتا ہے؟ دینے والا ایک خدا کی ذات ہے۔
ہم لوگ تو نبیؐ کے فقیروں کے فقیر ہیں یہی وہ بزرگانِ دین ہیں جن کی وساطت سے پیغامِ خدا اور نظامِ مصطفےٰؐ سے ہم لوگ سر فراز ہیں۔ بزرگانِ دین نے راہِ خدا میں زندگی کو بندگی سے منور کیا یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے دوستوں سے محبت ہی اللہ تعالیٰ اور اُس کے حبیب سے محبت ہے۔ اسلحہ برداروں میں ایک نے جلال میں آتے ہوئے کہا کہ اگر تم لوگ یہ سب کچھ جانتے ہو تو پھر دربار کو سجدہ کیوں کر رہے تھے؟
بزرگوں نے کہا ہاں ہم مجبور تھے اس لیے سجدے میں گر گئے یہ سوچ کر کہ چلو اگر موت آ ہی گئی ہے تو سجدے ہی میں جان کی امانت اللہ کو لوٹا دیں گے۔ اچھا بچو! ہم چلتے ہیں خدا حافظ۔ ایک بزرگ نے دوسرے سے کہا (عظیم گلا، رابنجارے شا) عظیم گل آؤ میرے شانے پر بیٹھ جاؤ۔ (ڈیرہ خہ دشازمانہ) اچھا شاہ زمان، عظیم گل ٹانگیں گھسیٹتا ہوا آیا اور اندھے شاہ زمان کے شانے پر سوار ہو گیا۔ عظیم گل نے کہا شاہ زمان کس طرف جاؤں اسلحہ بردار یہ دیکھ کر پریشان ہو گئے۔ عظیم گل لنگڑا تھا اور شاہ زمان اندھا۔