Hame Sachai Ka Sath Dena Hoga
ہمیں سچائی کا ساتھ دینا ہوگا
منافق کا ساتھ دینے والے منافق سے کم نہیں ہوتے، اللہ تعالیٰ ایسے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دیتا ہے۔ ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیتا ہے، ارشادِ ربانی ہے، جب وہ جھوٹ بولتے ہیں، جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد مت پھیلاؤ تو کہتے ہیں، ہم تو فقط اصلاح کرنے والے ہیں، خبردار یہ ہی فساد کرنے والے ہیں۔ لیکن یہ سمجھتے نہیں، یہ لوگ گونگے، بہرے اور اندھے ہیں، اس لیئے راہ حق کی طرف لوٹتے نہیں۔
آج ہم پاکستان میں یہی کچھ دیکھ رہے ہیں، مغرب پرست جانتے ہیں کہ قومی معیشت تباہی کے دھانے پر ہے، قومی وقار کو گروی رکھ دیا ہے اور حکمرانی کے شوق میں مغرب پرست خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔ لیکن جب ضمیر جاگتا ہے تو دل کی بات زبان پر آجاتی ہے، تب وہ زبان سچ کے سوا کچھ نہیں بولتی، چیئرمین نیب آفتاب سلطان نے ادارے کے افسران سے الواداعی خطاب میں کہا میں نے بطور چیئرمین مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس لئے کہ میں کسی کے خلاف جھوٹا مقدمہ دائر نہیں کر سکتا اور ناہی کسی ریفرنس کو اس لیے فارغ کر سکتا ہوں کہ ملزم کسی بااثر شخصیت کا رشتہ دار ہے۔ آئین تمام مسائل کا حل فراہم کرتا ہے اور آئین کی پاسداری نہ کرنے کی وجہ سے ملک میں سیاسی اور معاشی بحران پیدا ہوا ہے۔ جب فرانس دنیا کی سب سے بڑی طاقت برطانیہ کو شکست دے رہا تھا تو فرانس کی دولت کے ذخائر میں کمی آنے لگی مگر فرانس کے لوگ فرانس کی فتح سے لاتعلق ہو گئے۔
اور انہوں نے روٹی کی مانگ کی اور روٹی کیلئے نعرے لگائے، حکومت فرانس پریشان ہوگئی۔ اس صورت حال سے نمٹنے کیلئے فرانس حکومت نے اشرافیہ پر اٹھنے والے اخراجات آدھے کر دیئے، یہاں تک کے شاہی اصطبل میں کھڑے گھوڑوں کی تعداد بھی آدھی کر دی۔ اس پر فرانس کے والٹیئر (Voltaire) جو ایک روشن خیال فرانسیسی فلسفی تھا۔ جو ایک شاعر، ناول نگار، ڈرامہ نگار اور تاریخ دان بھی تھا۔
اس نے اس فیصلے پر احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ گھوڑوں کی بجائے اگر محل میں موجود گدھوں کی تعداد کم کر دی جاتی تو زیادہ بہتر ہوتا" اور والٹیئر کے ساتھ فرانس کی عوام کھڑی ہوگئی۔ اور ایک ہم ہیں، جو آج بھی 80 وزیروں مشیروں کی فوج پر کروڑوں روپوں کے اخراجات کے باوجود خاموش ہیں، قوم وہ ہوتی ہے۔ جو عوامی مسائل کیلئے یکجا ہو، ہماری حالت یہ ہے کہ ہم پیٹ کے ایک معاملے میں بھی یکجا نہیں ہیں، یہ وزیروں کی فوج نا ہمیں روٹی دے رہی ہے نہ بجلی گیس دے پا رہی ہے۔
قوم کا باشعور طبقہ جانتا ہے کہ جہاں خواب و خیال چھین لیئے جاتے ہیں، وہاں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم انسانوں میں جی رہے ہیں یا جانوروں میں وطن دوست لکھ رہے ہیں کہ، آرمی، نیوی، ائرفورس کے افسران، ججز، بیوروکریسی، وزیروں، مشیروں کی سرکای گاڑیاں ختم کرکے بیچ دی جائیں۔ مراعات ختم کریں، اپنی ذاتی گاڑیوں، ذاتی پٹرول پر دفتر آمد و رفت شروع کریں۔
گھر کے گیس بجلی، ٹیلیفون کے بلوں کی ادائیگی ایک عام ملازم پیشہ افراد کی طرح اپنی تنخواہوں سے ادا کریں۔ بیرونی اشیاء کا استعمال بند کریں توایک ماہ میں کھربوں روپے کی بچت ہو جائے گی، ایک سال میں سارے کا سارا بیرونی و اندرونی قرضہ ادا ہو جا ئیگا، ممتاز دانشور، میاں وقار الاسلام لکھتے ہیں۔ ذرخیز مٹی ہی سونا اگلتی ہے، اور ذرخیز ذہن ہی خوشحالی لاتے ہیں۔ بنجر ذہن ہمیشہ بری خبر ہی لاتے ہیں۔
بنجر معاشروں پر کوئی سرمایہ کاری نہیں کرتا۔ ذرخیز ذہن بنجر مٹی کو بھی سونا بنا سکتا ہے، جب کہ بنجر ذہن ذرخیز مٹی کو بھی بنجر کر دے گا۔ دلیر لیڈر میں اور دم ہلانے والے لیڈر میں فرق یہی ہوتا ہے کہ دم ہلانے والا لیڈر جب بھی آتا ہے منحوس خبریں ہی لے کر آتا ہے۔ دم ہلانے والے لیڈر کو ہمیشہ لیٹ جانے کی عادت ہوتی ہے اور وہ ہمیشہ ملک اور قوم کے لیے شرمندگی کا باعث بنتا ہے۔
ہر معاشرے میں ذرخیز ذہن موجود ہوتے ہیں، مگر کچھ نالائق اور بنجر لوگ انہیں کبھی استعمال میں نہیں لاتے تو یہ لوگ یا تو بیٹھے بیٹھے ختم ہو جاتے ہیں یا پھر اپنے ملک سے ہی دور چلے جاتے ہیں۔ اللہ کسی بستی کو یونہی آزمائش میں نہیں ڈالتا، یقینا ان کے لوگ ہی ہوتے ہیں، جو شعور و فکر میں اندھے ہوتے ہیں۔ ہم پاکستانیوں کو اپنے پاکستان کے متعلق سوچنا ہے، ہمیں سوچنا ہے کہ جو چالیس سال ہم پر حکمران تھے۔
انہوں نے دیس کو کیا دیا دیس والوں کو کیا دیا اور اپنے لئے کیا کیا اور کر رہے ہیں، ہمیں ہمیشہ ان لوگوں کا چناؤ کرنا ہے، جن کو عزت دے کر وہ خود سے بڑ کر ہماری عزت کریں، اگر ہم شعوری طور پر صاحب علم ہیں تو ہمیں جان لینا چاہیے کہ صاحب علم کی زبان سچ اور جاہل کی زبان جھوٹ ہوتی ہے، ہمیں سچائی کا ساتھ دینا ہوگا، اپنے لئے اپنے دیس کے لئے، ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ دنیا میں سب سے بڑی کمزوری شرافت ہے، جس کا فائدہ گھٹیا لوگ اٹھاتے ہیں۔