Ghulam Rahen Ge
غلام رہیں گے
پاکستان کی بَرّی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے پاکستان نیول اکیڈمی کراچی میں شارٹ سروس کمیشن پاسنگ آوٹ پریڈ میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ بلاشبہ پاکستانی قوم آ ج نہایت سنگین مسائل سے دوچار ہے۔ جن سے نجات پانے کیلئے ان حالات کے اسباب کا درست تعین لازمی ہے۔
اس پہلو سے جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آ تی ہے کہ ہماری موجودہ مشکلات کے اسباب محض خارجی عوامل تک محدود نہیں، بلکہ پچھلے کئی عشروں سے جاری ہماری اپنی سنگین غلطیاں بھی ان حالات کو جنم دینے کا باعث بنی ہیں۔ ہماری موجودہ معاشی زبوں حالی میں جہاں کووڈ کی عالمی وبا اور پھر پچھلی برسات میں ملک کے بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لینے والے تباہ کن سیلاب کا حصہ ہے۔
وہیں پچھلے دور حکومت کی تسلسل اور استحکام سے عاری معاشی پالیسیوں اور احتساب کے نام پر سیاسی مخالفین کو ٹھکانے لگانے کی کارروائیاں بھی، اس کا ایک بڑا سبب ہیں۔ جن کی وجہ سے ایک طرف ہماری معیشت مکمل طور پر آئی ایم ایف کی دست نگر بن گئی اور دوسری طرف پوری قوم شدید تفریق و تقسیم کا شکار ہوئی، احتسابی تنظیمیں حکومت وقت کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر رہ گئیں۔
جنرل عاصم منیرکا یہ اعتراف قابل ذکر ہے کہ ہماری موجودہ مشکلات کے اسباب محض خارجی عوامل تک محدود نہیں بلکہ پچھلے کئی عشروں سے جاری ہماری اپنی سنگین غلطیاں بھی ان حالات کو جنم دینے کا باعث بنی ہیں، وہ اگر اس اعتراف کو دل سے تسلیم کرلیں تو ممکن ہے، پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے، لیکن جنرل صاحب کا یہ کہنا کہ پچھلے دور حکومت کی تسلسل اور استحکام سے عاری معاشی پالیسیوں اور احتساب کے نام پر سیاسی مخالفین کو ٹھکانے لگانے کی کارروائیاں بھی اس کا ایک بڑا سبب ہیں۔
جنرل صاحب کی سوچ سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پی ڈی ایم کی زبان میں بول رہے تھے اور وہ قومی سیاست میں سیاست دانوں کو آزاد نہیں چھوڑیں گے، سیاست دان اسٹیبلشمنٹ کے غلام رہیں گے۔ عمران خان واشگاف لفظوں میں کہہ رہے ہیں کہ نیب اور سپریم کورٹ جنرل قمر جاوید باجوہ کے اشاروں پر ناچ رہی تھی۔
اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے تو اسٹیبلشمنٹ اپنے چہرے سے نیوٹرل کا نقاب اتار دے، سیاست دانوں کو فارغ کر دے اور تخت اسلام پر بیٹھ جائے۔ عوام کو سیاست دانوں کے ساتھ جمہوریت کے ڈرامے میں سڑکوں پر کیوں خوار کر رہے ہیں۔ سینئر تجزیہ کاروں کا یہ کہنا غلط نہیں کہ صرف کراچی نہیں پورے پاکستان میں مائنس عمران فارمولے پر کام ہو رہا ہے۔
پی ٹی آ ئی کو روکنے کیلئے کراچی میں، ایم کیو ایم کے دھڑوں کو اکٹھا کرکے مائنس الطاف فارمولا اپلائی ہو رہا ہے، پی ٹی آئی سیاسی جماعت ہے۔ سیاسی جماعت کو سڑکوں پر نہیں پارلیمنٹ میں ہونا چاہئے، پی ڈی ایم کیلئے کل تک جو پارلیمنٹ حرام تھی اقتدار ملتے ہی حلال ہوگئی ہے، ظاہر اس طبقے کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔ جسے عوام نے مسترد کر دیا ہے، لیکن یاد رکھیں۔
عمران خان قومی لٹیروں پر عذابِ الٰہی بن کر نازل ہوئے ہیں۔ وہ عوام کے دلوں کی دھڑکن ہیں۔ اگر رجیم چینج کے بد بخت مل کر بھی عمران خان کو نہیں گرا سکے تو ایم کیو ایم کے خود پرست کس باغ کی مولیاں ہیں۔ ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باشندے ہیں، گریبان ہونے کے باوجود ہم اپنے اندر کی غلطیوں کو نظر انداز کر رہے ہیں، ہم معیشت کی بربادی کا رونا رو رہے ہیں، لیکن اسے بھول رہے ہیں، جو مقدر لکھتا ہے، اسے مقدر بدلنے کا بھی اختیار ہے۔
کاش ہر کوئی یہ تسلیم کر لے کہ اس کے ایک دیا جلانے سے آسمان روشن تو نہیں ہوگا، لیکن اتنا جان لے کہ اس نے ا پنے حصے کا دیا جلانا ہے۔