Daur e Hazir Ka Sab Se Bara Sach
دور حاضر کا سب سے بڑا سچ
قمر جاوید باجوہ صاحب نے چند نامور صحافیوں کے ساتھ الودعی ملاقات میں حق گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑے دکھی دل کے ساتھ کہا کہ ہم چارجنرلز PDM پر قربان ہوئے ہیں اور بڑا دکھ یہ ہے کہ فوج کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے ہم نے دیکھا کہ سی پیک آ چکا ہے۔ معشیت مضبوط ہے، تاریخ میں پہلی بار پاکستان اتنا سٹرونگ تھا۔
ڈالر بھی کانسٹنٹ تھا، ہم نے PDM کے لیئے تمام راستے کلئیر کیے ہمیں یقین دلایا گیا کہ معیشت اس سے بھی بہت زیادہ بہتر ہوگی، کیونکہ ہمارے پاس 200 بندوں کی معاشی ٹیم ہے۔ لیکن PDM کو لانے کے بعد ہمیں احساس ہوگیا تھا کہ ہم بہت بڑی غلطی کر بیٹھے ہیں۔ چونکہ ہم اس کا حصہ تھے۔ اس لیے ہم نے آخری دم تک PDM کا بھر پور ساتھ دیا، لیکن یہ نہ چل سکے۔
کیونکہ یہ صرف باتیں ہی کر سکتے ہیں عملی طور پر ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ اس لئے مزید تباہی سے بچنے کے لیے ہم نے نیوِٹرل ہونا ہی بہتر جانا، اب ہمیں گیٹ نمبر 4کو مکمل طور پر ہر قسم کے سیاستدانوں کے لیے بند کرنا ہوگا، اسی میں پاکستان کی بھلائی ہے، میں نے باجوہ صاحب کو صحافیوں سے بات کرتے نہیں سنا، اس لئے کہ میں وہاں نہیں تھا، میں نے پڑھا ہے، لکھنے والے نے جو لکھا اگر یہ سچ ہے تو یہ دور حاضر کا سب سے بڑا سچ ہے۔
میرے دیس پاکستان میں، خان لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد تو ہم بوٹوں کی حکمرانی میں رہے وہ کھبی پیش منظر میں رہے اور کبھی پس منظر میں اور ہم مدہوش رہے، پاکستان میں جمہوریت کے علم بردار کب خود سامنے آئے ہیں؟ انہیں بھی تو لایا گیا، جنرل ایوب بھٹو کو سامنے لائے اور وہ ہی ان کے جوڑوں میں بیٹھ گئے، جنرل ضیاءالحق میاں محمد نواز شریف کو سیاسی منظر پر لائے۔
جب تک غلام رہے، نیک نام صادق اور امین تھے۔ لیکن جب پر نکل آئے، جنرل کو آنکھ دکھائی، تو صادق اور امین نہیں رہے، اسے تو سمجھ ہی نہیں آئی رو رو کر پوچھتے رہے مجھے کیوں نکالا؟ لیکن جنرل قمر جاوید باجوہ کا کیا قصور، وہ تو نقشِ قدم پر چلے ہیں، وہ عمران خان کے لئے خلائی مخلوق ہوئے، عمران خان غلام تھے تو عظیم تھے، لیکن اس کے بھی پر نکل آئے۔
اس نے بھی بھٹو کی طرح امریکہ کا خط لہرایا، تو جس عدالت نے اسے صادق اور امین کہا تھا وہ ہی عدالت رات بارہ بجے لگ گئی، اور پاکستان میں آئی ہوئی تبدیلی واپس چلی گئی۔ آج اگر قمر جاوید باجوہ کہتے ہیں کہ اب ہمیں گیٹ نمبر 4 کو مکمل طور پر ہر قسم کے سیاستدانوں کے لیے بند کرنا ہوگا، تو یہ غلط کہہ گئے، شیر کے منہ کو انسانی خون لگ جائے تو وہ خونخوار ہو جاتا ہے۔
لیکن اگر جنرل عاصم منیر نے واقعی گیٹ نمبر چار بند رکھا تو یہ پاکستان میں بڑا معجزہ ہوگا۔ لیکن سینٹر اعظم سواتی کی دوبارہ گرفتاری اور اس کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے بعد ایسے کسی معجزے کی امید نہیں، ٹیلی ویژن سکرین اور سوشل میڈیا کے بونکر جو کہتے ہیں انہیں کہنے دیں، وہ تو اپنی دھاڑیاں لگا رہے ہیں، لیکن بحثیت قوم ہمیں سوچنا ہوگا دیس اور دین کے ساتھ خود کو بھی سوچنا ہے۔
کیا ہم نہیں جانتے کہ آج کی پی ڈی ایم کے مومن کل کیا تھے؟ کیا یہ مومن گزشتہ کل ایک دوسرے کی نظر میں شیطان نہیں تھے، آج دیس اور دیس والوں کے غم خوار بنکر اس کے خلاف ایک ساتھ کھڑے ہیں۔ جو دیس اور دین کی بات کرتا ہے، جو ریاستِ مدینہ کی بات کرتا ہے، قومی ادارے بھی ان کے سہولت کار ہیں، قانون خاموش اور عدالت خاموش تماشائی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ قصور ان کا بھی نہیں، قصور ہم عام عوام کا ہے، ہم ان ہی کے گیت گاتے ہیں۔ جو یہود اور ہنود کے غلام ہیں۔ ہم نے نہ تو خود کو سوچا نہ دیں اور نہ دیس کو، سوچا تو قومی لٹیروں اور ان کے ذاتی مفادات کو سوچا، ہم نے تو اسے بھی معاف نہیں کیا، جس نے ہمیں گوروں اور ہندوؤں کی غلامی سے نجات دلائی، ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم عام عوام جاہل اور گنوار ہیں اور وہ جو دین کے علم بردار ہیں۔
جو منبر رسول پر بیٹھ کر ہمیں درسِ توحید دیتے ہیں، وہ بھی ریاستِ مدینہ کا خواب دیکھنے والے کا مذاق اڑا رہے ہیں، قوم کی بہن بیٹیوں پر کیچڑ اچھال رہے ہیں، شرم اس کو بھی نہیں آئی، جس نے ایک خاتون وزیرکے لئے توہین آمیز کلمات کہے جانے ہم گزشتہ کل کو کیوں رو رہے ہیں، آنے والے کل کو کیوں نہیں سوچتے، اب بھی وقت ہے، آؤ ان کے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔
جو دین کی بات کرتے ہیں، جو دیس کی بات کرتے ہیں، جو ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں، یاد رکھیں گیا، وقت واپس نہیں آئے گا، ایک ظلم ہم اپنے ساتھ اس وقت کر بیٹھے تھے۔ جب ذوالفقار بھٹو ہمیں اپنے ساتھ کھڑے ہونے کے لئے بلا رہے تھے اور ایک ظلم اپنے ساتھ، اپنے دیس کے ساتھ، اب کر رہے ہیں، یاد رکھیں آج نہیں تو کھبی نہیں، اپنے آزاد دیس میں اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے لئے اگر خدا نے سنہری موقع دیا ہے تو آؤ اللہ کا شکر ادا کریں۔