Dastane Pehen Kar, Dastanein Likhne Wale
دستانے پہن کر، داستا نیں لکھنے والے
پشاور پولیس لائن کی مسجد میں"خود کش" بم دھماکے میں 100 سے زائد شہادتوں کے واقعہ نے قانون نافذ کرنے والے اور پالیسی بنانے والے اداروں کو زمینی حقائق کے ساتھ ساتھ ٹیکنیکل بنیادوں کو بھی سامنے رکھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس لئے کہ خودکش دھماکے سے ستون اور دیواریں نہیں گرتیں اور دس کلو دھماکہ خیز مواد لے جانے والا شخص پولیس کو چکمہ دے گیا تو کیسے دے گیا، وڈیو میں دکھائے جانے والا نمازی بھی تو ہو سکتا ہے اس نے پولیس اہلکار سے ہاتھ ملایا، پولیس عام طور پر ایسے خودکش دھماکوں کے بعد کسی نامعلوم شہید کا سر دکھا کر کہتی ہے، دہشت گرد کا سر مل گیا، جیسے اس نے ماتھے پر لکھا ہو کہ، میں دہشت گرد ہوں۔
خیبر پختون خوا کا درد رونے والے، نور عالم خان کہتے ہیں سارے پختون پاکستان سے محبت کرتے ہیں لیکن دہشت گردی میں ہم پختون ہی کیوں مرتے ہیں، ہمیں کہا جاتا ہے کہ 25، 30 سال سے یہ سب ہو رہا ہے، کون کر رہا ہے؟ کیا میں دہشتگرد ہوں؟ ہمیں بتایا جائے کہ اگلے تیس سال ہمارے ساتھ کیا کرنا ہے، کیا ہمارے لوگ ایسے ہی شہید ہوں گے۔ اس ملک کے مالکان سے سوال ہے کہ اب آپ ہمارے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں۔
ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے بعد حسب سابق جاری اعلامیہ میں کہا گیا، پاکستانیوں کا خون بہانے والے دہشت گردوں کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے گا، سوشل میڈیا پر عابد خلیل نے کیا خوب لکھا ہے، 2002 سے 3202 تک چہروں کی تبدیلی کے سو ا وہ ہی ہسپتال، وہ ہی صوبہ وہ ہی قوم وہ ہی طریقہ واردات، وہ ہی وردی وہ ہی مذمت وہ ہی کیفر کردار تک پہنچانے کے جنرل کیانی، راحیل شریف، جنرل باجوہ، اور اب عاصم منیر کے دعوے، وہ ہی پالیسی وہ ہی جنازے وہ ہی گلدستے، وہ ہی سلامی وہ ہی سلوٹ، وہ ہی چاک و چوبند دستے وہ ہی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی آہیں، وہ ہی سسکیاں وہ ہی خاموشی، سیاسی پنڈتوں کے وہ ہی سیاسی نعرے وہ ہی الزام تراشیاں، جن کے مؤجد بھی وہ ہی ہیں کچھ بھی تو نہیں بدلا۔
تحریک انصاف کے دور اقتدار میں جس دہشت گردی کے عذاب سے پاکستان کو نجات ملی تھی، مغرب پرستوں کی حکمرانی قوم ایک بار پھر اسی عذاب سے دو چار ہے۔ قوم انگشت بدنداں ہے کہیں یہ وہ کھیل تو نہیں کھیلا جا رہا، جو لیاقت علی خان اور بے نظیر بھٹو سے نجات کے لئے کھیلا گیا تھا، لاشوں پر سیاست تو مغرب پرستوں کا محبوب مشغلہ ہے قوم کا باشعور طبقہ سوچ رہا ہے کہ دستانے پہن کر، لاشیں گرا کر، داستانیں لکھنے والے کہیں یہ کھیل عمران خان سے نجات کے لئے تو نہیں کھیل رہے۔ ایسا ممکن ہے اس لئے کہ درندہ صفت مغربی غلام جانتے ہیں کہ پاکستانی عوام غلام ابن غلام ہیں، دو چار دن ماتم کریں گے اور خاموش ہو جائیں گے۔
بقول تحریک انصاف حکومت کی آ ل پارٹیز کانفرنس ایک ڈرامہ ہے۔ حکومتی وسائل کا رخ صرف پکڑ دھکڑ کی طرف ہے، مخالفین کے خلاف غداری کے مقدمے درج کر کے آ ئین کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، جھوٹے مقدمے درج کیے جا رہے ہیں۔ عمران خان کہتے ہیں کہ میں سازش اور ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے قوم پر مسلط کردہ اس امپورٹڈ سرکار کو ہرگز تسلیم نہیں کرتا۔ 10 مہینے میں اس حکومت کے ہاتھوں معیشت کی تباہی، ننگی فسطائیت کے ذریعے جمہوریت کے قتل، قانون کی حکمرانی بنیادی حقوق کے خاتمے اور دہشت گردی کو اپنی ناک تلے پھیلنے کی اجازت دیے جانے پر نگاہ ڈالتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ شہباز شریف اتنا بے شرم کیسے ہو سکتا ہے۔
دنیا جانتی ہے، رجیم چینج میں پاکستان پر مسلط ہونے والے اقتدار پرستوں نے عوامی مینڈیٹ کا خون کیا، آج پاکستانی ایک بار پھر دور ضیاءالحق کے فرعونیت میں جی رہے ہیں، مغرب پرست دور ضیاءالحق کی پیداوار دور ضیاءالحق کی بربریت کی یاد تازہ کر رہے ہیں، افسر شاہی، عدالتیں اور جرنیل وہ ہی کچھ کر رہے ہیں جو دورِ ضیاءالحق میں قوم بھگت چکی ہے لیکن دنیا نے یہ بھی دیکھا ہے جب وقت کے جابر جنرل کو ان کے چاہنے والوں نے فضا میں دھواں بنا کر اڑا دیا، اس لئے کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ نون کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی کے پارٹی عہدے سے استعفیٰ کے بعد سینٹ کے اجلاس میں مسلم لیگ ن کے ترجمان سینٹر مشاہد رضا نے کہا کہ ہماری حکومت لولی لنگڑی ہو چکی ہے روز جوتے پڑتے ہیں اور گالیاں کھاتے ہیں بہتر ہوگا کہ حکومت چھوڑ کر عام انتخابات کی طرف جائیں اگر دیر ہوگئی تو کوئی جنرل آ جائے گا اور پھر ہم جمہوریت کا ماتم کریں گے۔
ہم جنرل ضیاءکو بڑی گالیاں دیتے ہیں لیکن پالیسی اس کی اپنائے ہوئے ہیں، جنرل ضیاء سے کسی نے پوچھا کہ عام انتخابات کب ہوں گے تو اس نے جواب میں کہا جب مثبت نتائج کے لئے فضا سازگار ہوگی، بھول جائیں مثبت نتائج کو، بھول جائیں کہ ا قتدار میں کون آئے گا، آج ہماری حکومت ہماری نالائقی کی وجہ سے مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ یہ آوازیں پی ڈی ایم کے اندر سے آ رہی ہیں ضمیر جاگنے لگے ہیں لیکن مغربی غلام بہرے اور اپنے شیطانی کھیل میں مست ہیں وہ جانتے ہیں، سب کچھ جانتے ہیں لیکن خوف ہے تو عمران خان کا، سر جوڑے بیٹھے ہیں کہ عمران خان سے نجات کیسے ملے گی۔