Chunnu Munnu Ke Khule Munh
چنوں منوں کے کھلے منہ
پی ڈی ایم، 21 جنوری کی شام کو پاکستان بھر کے چینلوں پر سوار تھی۔ اور دنیا ان کی منافقت کا تماشہ دیکھ رہی تھی، وہ کسی کی خاص منشاءکے مطابق بول رہے تھے اور پاکستانی سوچ رہے تھے کہ ایسے بھی منافق ہوتے ہیں ریاست میں؟
پاکستان پیپلز پارٹی، نے جماعت اسلامی کے دھرنے بلدیاتی انتخابات کا مطالبہ تسلیم کرنے سے پہلے کہا تھا، حافظ صاحب قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں افواج پاکستان نے کہا ہمارے پاس بلدیاتی انتخابات کے لئے فورس نہیں ہم دہشگردوں سے لڑ رہے ہیں ویسے بھی بظاہر وہ نیوٹرل ہیں، پلان کے مطابق ایم کیو ایم نے کہا دیکھتے ہیں بلدیاتی انتخابات کیسے ہوتے ہیں، کراچی والوں کے لئے یہ دھمکی ہی کافی تھی اس لئے کہ وہ بوری بند لاشوں کا درد جانتے ہیں۔
شر جیل میمن نے کراچی والوں کے دل جیتنے کے لئے کہہ دیا، ایم کیو ایم کے تحفظات ہیں اس لیے ہم نوٹیفیکیشن واپس لیتے ہیں اور جماعتِ اسلامی پرویز الٰہی کے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد میاں چنوں منوں کی طرح پیپلز پارٹی کا منہ دیکھتے رہ گئی، لیکن بھلا ہو الیکشن کمیشن کا۔ الیکشن کمیشن نے کہا، الیکشن ہوں گے، کراچی پی ڈی ایم، کی پریس ک کانفرنس میں دھمکی کام نہ آئی تو ممبران سے استعفے منگوا لئے، اور اسلام آباد جا کر شہباز شریف کے گود میں بیٹھ گئے، اب بتاؤ جو آپ نے کہا کر دیکھایا لیکن کوئی حربہ کام نہ آیا۔
شہباز شریف نے کہا ہوگا، اب میں بے اختیار ہوں، پنجاب میں جو کچھ ہوا اس سے مجھے اندازہ ہوگیا ہے کہ میرے شانے پر سے ہاتھ اٹھ گیا میں بے بس ہوں، کراچی پی ڈی ایم کو شاید ان پر ترس آیا، ویسے بھی وہ جان گئے ہیں کہ کراچی ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے، جو مل رہا ہے وہ تو کھائیں، اس لئے انہوں نے بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کرتے ہوئے امپورٹڈ حکومت کے ساتھ رہنے کا اعلان کیا، اور ایم کیو ایم کو کھڑا کرنے، توڑنے اور پھر سے جھوڑنے والے بھی خاموش ہو گئے، در اصل یہ لوگ خوف زدہ ہیں۔ اس لئے کہ پاکستان سے محبت کرنے والوں کی آنکھوں میں خون اتر آیا ہے، اس لئے یہ لوگ عوامی عدالت میں جانے اور انتخابات کے نام سے بھی گھبرا رہے ہیں۔
امریکی غلام دن کی روشنی سے خائف ہیں اندھروں میں زندہ رہنا چاہتے ہیں پرویز الٰہی اور خان نے ان کے ساتھ وہ ہی کچھ کیا جو انہوں نے کیا تھا۔ اپریل 2022 میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کی کامیابی کے روز عدالت عظمیٰ کے دروازے آدھی رات کو کھلے پرویز الٰہی نے بھی آدھی رات تک مغرب پرستوں کو الجھائے رکھا، پنجاب اسمبلی کی مہمان گیلری میں چنوں منوں مشورے دے رہے تھے، اور درباری چنوں منوں کے اشاروں پر وہ کچھ کر رہے تھے جو ان کے خاندانی وقار کی بھی توہین تھی، یہ لوگ اپنا شغل کھیل رہے تھے اور پنجاب اسمبلی کے سپیکر نے اعلان کر دیا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب 186 ووٹ لے کر ایوان کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں، میاں چنوں منوں کے تو منہ کھلے کے کھلے رہ گئے وہ اسمبلی کے تالے اس خوف سے توڑ کر بھا گ گئے کہ کہیں جوتے نہ پڑ جائیں۔
میاں چنوں منوں لیگ کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ خان آج کیا کھیل کھیلنے والا ہے بقول چوہدری پرویز الٰہی کے چنوں منوں بارات لے کر آئے تھے لیکن ان کی ڈولی اور جھولی خالی ہوگئی یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ گذشتہ ماہ یعنی دسمبر کے اواخر میں گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے بھی پرویز الہی کو اعتماد کا ووٹ نہ لینے پر رات 12 بجے کے قریب ہی وزارت اعلیٰ کے عہدے سے انہیں ڈی نوٹیفائی کیا تھا اور کی کابینہ تحلیل کر دی تھی۔ اگر دیکھا جائے تو یہ پنجاب میں پی ڈی ایم کی پہلی شکست نہیں۔ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد پنجاب میں یہ ان کی تیسری عبرت ناک شکست ہے۔ لیکن شرم کسی کو نہیں آئی۔
وسعت اللہ خان اپنے کالم میں لکھتے ہیں، کہ کسی بھی الیکشن سے محض دو دن پہلے جب ایک دوسرے کی شکل برداشت نہ کرنے والے تین سیاسی دھڑے جبری نکاح کے گروپ فوٹو کی طرح نظر آنے لگیں اور ہنی مون پیریڈ گزارے بغیر ہی انھیں انتخابی انگاروں پر سے گزر جانے کا حکم مل جائے تو پھر جان بچانے کے لیے کسی نہ کسی جواز کے جوتے پہن کے پتلی گلی سے نیچے نیچے ہو کر نکلنا ہی پڑتا ہے۔ یہ تو انتخابی سیاست کا معمولی طالبِ علم بھی جانتا ہے کہ نئی انتخابی حلقہ بندیاں یا نئی مردم شماری جیسے مطالبات انتخابات کی تاریخ کے اعلان سے بہت پہلے ہوتے ہیں۔
اگر یہ مطالبہ منطقی اعتبار سے درست ہے تو پھر اسی اصول کے تحت پہلے مرحلے کا بائیکاٹ کیوں نہیں کیا گیا۔ ایسا کیسے ممکن ہے کہ آدھا سندھ پرانی حلقہ بندیوں کے تحت ہونے والے انتخابی عمل پر گزارہ کرے اور بقیہ سندھ نئی حلقہ بندیوں کی فرمائش ڈال دے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ایم کیو ایم کے علاوہ جماعتِ اسلامی اور پی ٹی آئی سمیت دیگر جماعتیں بھی اس مطالبے کی وکالت کرتیں اور تحفظات رکھتے ہوئے انتخابی عمل میں حصہ نہ لیتیں۔
ویسے بھی جس پارٹی کا دل الطاف حسین کے قبضے میں اور دماغ اسٹیبلشمنٹ کے قبضے میں ہو، اس کا مقام سیاست میں وہی رہ جاتا ہے جو کار کی ڈگی میں پڑی سٹپنی کا۔