Kya Humein Israel Ko Tasleem Kar Lena Chahiye? (1)
کیا ہمیں بھی اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیئے؟ (1)
بعض لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کی آخر کیا وجہ ہے؟ کیا اس کی وجہ اسرائیل کا فلسطینی مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھانا ہے؟ لیکن ایسا تو بھارت کشمیر میں، امریکہ افغانستان میں اور روس شام میں بھی کر رہا ہے اور انہیں تو پاکستان نے تسلیم کیا ہوا ہے! یا پھر وجہ یہ ہے کہ اسرائیل ایک یہودی وجود ہے؟ لیکن یہودی لابی تو امریکہ کی حکومت اور بعض اور ممالک کی حکومتوں میں بھی موجود ہے! پھر اسرائیل کے ساتھ ہمارا رویہ باقی غیر مسلم ممالک سے مختلف کیوں ہے؟ کیا یہود کو اسلام نے اہل کتاب میں شمار کر کے ان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے سے متعلق احکامات نہیں دیئے جیسا کہ عیسائیوں کے معاملے میں کیا ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر اسرائیل کو تسلیم کرنے میں کیا چیز مانع ہے؟ اگر کہا جائے کہ قرآن کریم میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے یہود اور ہنود کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ وہ کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے، تو پھر بھارت کو ایک ملک کے طور پر تسلیم کئے رکھنے کی کیا وجہ ہے جبکہ اب اس کا ایک سیکیولر ریاست ہونے کی بجائے ایک ہندو ریاست ہونا بالکل واضح ہو چکا ہے؟
ترکی کی جانب سے ۱۹۴۹ء میں، مصر کی جانب سے ۱۹۷۹ء میں اور اردن کی جانب سے ۱۹۹۴ء میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد ابھی کچھ روز پہلے ۱۵ ستمبر ۲۰۲۰ کو متحدہ عرب امارات اور بحرین کی طرف سے بھی اسرائیل کو تسلیم کرلینے پر یہ بحث پھر سے چھڑ گئی ہے کہ کیا اب پاکستان کو بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کر لینا چاہیئے؟ اس سلسلہ میں مذکورہ بالا اور ان جیسے دیگر سوالات ایک عام شخص کے ذہن میں ابھرتے ہیں جو کہ جواب طلب بھی ہیں۔
اس مسٔلہ کا تعلق اسرائیل کے مذہب یا اسرائیل کے مسلمانوں پر ظلم کرنے سے نہیں بلکہ اس کا تعلق اسرائیل کے وجود کی حقیقت کو سمجھنے سے ہے جو کہ باقی ریاستوں سے یکسر مختلف ہے۔ اسرائیل ایک ایسی ریاست ہے جس کا وجود ہی اس بات کا مرہون منت ہے کہ اس کا فلسطین کی سرزمین پر قبضہ بر قرار رہے۔ اگر یہ قبضہ چھڑا لیا جائے تو اسرائیل کا بطور ریاست وجود ہی ختم ہو جاتا ہے، قطع نظر اس سے کہ قبضہ چھڑانے کے بعد یہودی مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ فلسطین میں بدستور رہتے ہی کیوں نہ رہیں کیونکہ ایسی صورت میں ان کی حیثیت فلسطین میں ایک اسلامی حکومت کے تحت بسنے والے غیر مسلم شہریوں کی سی ہو گی اور انہیں وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو شریعت کی جانب سے ایک اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہریوں کو حاصل ہوتے ہیں۔ لہٰذا اسرائیل کو تسلیم کرنا اس کے اس قبضے پر مہر تصدیق ثبت کرنا ہے جو کہ اس نے فلسطین کی سرزمین پر کر رکھا ہے، اور یہ ایک بالکل نا جائز قبضہ ہے۔
یہ قبضہ ان قبضوں سے مختلف ہے جو بھارت کا کشمیر یا امریکہ کا افغانستان پر ہے کیونکہ اگر بھارت اور امریکہ کا کشمیر اور افغانستان پر سے قبضہ چھڑوا لیا جائے تب بھی بھارت اور امریکہ کا بطور ریاست اپنی اپنی سرزمینوں پر وجود باقی رہتا ہے۔ اس لئے بھارت اور امریکہ کو تسلیم کرنا ان کے کشمیر اور افغانستان پر قبضے کی تصدیق کرنے کے قائم مقام نہیں۔ اس کے برعکس اسرائیل کو تسلیم کرنا دراصل اس کے فلسطین پر ناجائز قبضے کو درست تسلیم کر لینے کے عین قائم مقام ہے۔ اور یہی وہ اصل بات ہے جس وجہ سے اسرائیل کو تسلیم کر لینا سرا سر غلط بھی ہے اور سنگین بھی اور یہ ان فلسطینی مسلمانوں کے اس خون کے ساتھ غداری بھی ہے جو وہ پچھلے ایک سو سال سے لے کر آج کی تاریخ تک مسلسل بہا تے چلے آ رہے ہیں۔
فلسطین کے مسلمانوں کے ساتھ زیادتیوں کا آغاز ۹ دسمبر ۱۹۱۷ کو برطانیہ کی جانب سے القدس کو فتح کرنے سے ہوا۔ اس سے پہلے فلسطین کی سرزمین خلافت عثمانیہ کا حصہ تھی۔ جنگ عظیم اول میں برطانیہ نے مکہ کے والی شریف حسین کے ساتھ یہ خفیہ معاہدہ کیا کہ اگر وہ خلیفۂ وقت کے خلاف بغاوت کرے گا اور برطانیہ اور فرانس کی افواج کے ساتھ مل کر خلافت عثمانیہ کی افواج کے خلاف جنگ کرے گا تو خلافت عثمانیہ کو حاصل ہونے والی شکست کے نتیجے میں برطانیہ اسے بشمول فلسطین عرب کے بہت سے علاقوں کا حاکم بنا دے گا۔ شریف حسین کی برطانیہ کے کرنل مک مہون کے ساتھ یہ مراسلت ۱۰ خطوط کی صورت میں جولائی ۱۹۱۵سے لے کر مارچ ۱۹۱۶ کے عرصے کے درمیان ہوئی جو کہ تاریخ میں "حسین۔ مک مہون مراسلت " کے نام سے محفوظ ہے۔ لہٰذا شریف حسین اور اس کے بیٹوں فیصل، عبد اللہ اور علی نے برطانیہ کے کرنل لارنس (بالمعروف لارنس آف اریبیہ) کے ساتھ مل کر خلافت عثمانیہ کی افواج سے جنگ کی۔ پہلے سے کمزور اور جنگ عظیم میں کھائے گئے زخموں سے چور خلافت عثمانیہ ان بغاوتوں کی تاب نہ لا تے ہوئے منہدم ہو گئی۔ لیکن برطانیہ نے شریف حسین کے ساتھ کئے گئے وعدے کا لحاظ نہ رکھا اور ۲ نومبر ۱۹۱۷ کو بیلفور اعلامیہ پیش کر دیا جس میں یہودیوں کو فلسطین کی سرزمین پر ایک مستقل رہائش گاہ دیئے جانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ یہ اعلامیہ برطانوی حکومت کے سیکریٹری خارجہ آرتھر بیلفور کی جانب سے برطانیہ کی یہودی برادری کے راہنما اور برطانوی پارلمنٹ کے سابقہ ممبر راس چائلڈ کو پیش کیا گیا۔
نومبر ۱۹۱۸ میں جنگ عظیم اول کے با ضابطہ طور پر خاتمے کےصرف دو ماہ بعدہی جنوری ۱۹۱۹ میں فاتح ممالک نے نئے مقبوضہ علاقوں پر، جن میں سے اکثریت خلافت عثمانیہ کے علاقوں کی تھی، اپنے قبضوں کو مستحکم کرنے کی غرض سے پیرس میں امن کانفرنس کے نام سے ملاقاتیں کرنا شروع کیں۔ جنگ عظیم اول کے نمایاں فاتح ممالک برطانیہ، فرانس، امریکہ، اٹلی اور جاپان کے درمیان یہ ملاقاتیں جولائی ۲۰۲۳ء تک جاری رہیں اور اس ساڑھے چار سال کے عرصے کے دوران وہ اس مقصد کے لئے ۱۴۵ بار ملے۔ یعنی اوسطاً ہر ۱۰ دن کے بعد ساڑھے چار سال تک مسلسل ملتے رہے! ان ممالک کے نمائندوں کا بین الاقوامی سطح پر یوں آپس میں اس تکرار کے ساتھ ملاقاتیں کرنے کے لئے بار بار اکٹھا ہونا جبکہ اس زمانے میں مواصلات اور نقل مکانی کے ذرائع بھی آج کی نسبت اتنے ترقی یافتہ نہ تھے، اس بات کو واضح کرتا ہے کہ مسلم مقبوضہ علاقوں کے اس آپسی بٹوارے کے عمل کی تکمیل کے لئے انہوں نے کس قدر محنت اور وسائل صرف کئے۔ انہی ملاقاتوں کے دوران جنگ عظیم اول کے ان فاتح ممالک نے ۱۰ جنوری ۱۹۲۰ کو "لیگ آف نیشنز "کے نام پر ایک بین الاقوامی ادارہ قائم کیا تا کہ ان قبضوں کو بین الاقوامی سطح پر باقاعدہ ایک قانونی رنگ دیا جا سکے اور مستقبل میں ان کے خلاف کوئی ملک آواز نہ اٹھا سکے۔
جاری