Gilgit Baltistan Sooba Aur Kashmir Cause (1)
گلگت بلتستان صوبہ اور کشمیر کاز (1)
بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ گلگت بلتستان کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ اسے ایک صوبہ بنا دیا جائے۔ اور یہ کہ اس وقت گلگت بلتستان کو صوبائی حیثیت کا حاصل نہ ہونا ہی وہاں کی عوام کے مسائل اور ان کی مشکلات کی بنیادی وجہ ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا باقی صوبوں کے تمام شہر یا علاقے بہت خوشحال اور مسائل سے آزاد ہو گئے ہیں کہ اگر گلگت بلتستان کو بھی صوبہ بنا دیا جائے تو وہ بھی ترقی کی بلندیوں کو چھونے لگے گا؟ پھر یہ بات بھی محل نظر رہے کہ کیا گلگت بلتستان کو صوبے کی حیثیت دے دینے کے اثرات صرف گلگت بلتستان تک ہی محدود ہوں گے؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کا تعلق ریاستی سطح کے کسی حساس نوعیت کے معاملے سے بھی ہو؟
وزیر ریلوے شیخ رشید صاحب کا حالیہ بیان شائع ہوا ہے کہ ۱۶ ستمبر ۲۰۲۰ کو حکومتی وزراء، عسکری قیادت اور حزب اختلاف کے نمائندگان کی ملاقات ہوئی جس میں ن لیگ کے شہباز شریف، خواجہ آصف اور احسن اقبال، پی پی پی کے بلاول زرداری اور شیریں رحمٰن، جماعت اسلامی کے سراج الحق اور اسی طرح جے یو آئی ایف اور اے این پی کے نامور اراکین نے شرکت کی۔ اس ملاقات میں گلگت بلتستان کو صوبہ کی حیثیت دینے کے حوالے سے بات ہوئی تا کہ اس معاملہ میں حزب اختلاف کو بھی اعتماد میں لیا جا سکے۔ ایسا کرنا اس لئے ضروری تھا کیونکہ گلگت بلتستان کو صوبہ میں تبدیل کرنے کا معاملہ آئین سے متعلق ہے اور آئین میں تبدیلی کے لئے دو تہائی اکثریت چاہیئے ہوتی ہے جو اس حکومت کے لئے اپوزیشن کی جماعتوں کو اعتماد میں لئے بغیر حاصل کرنا ممکن نہیں۔ اس ملاقات میں حزب اختلاف کی جانب سے ایک سینئر رکن کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنا دینے کے نتائج کو بھی دیکھنا ہو گا کہ کہیں اس سے ملک کے کشمیر سے متعلق موقف کو ٹھیس نہ پہنچے۔ لیکن حزب اختلاف میں سے اکثریت کی دلچسپی اس معاملے میں تھی کہ گلگت بلتستان کو صوبہ کی حیثیت آیا وہاں آنے والے انتخابات سے پہلے دی جائے یا بعد میں۔ اس سلسلہ میں حزب اختلاف کا موقف یہ تھا کہ ایسا انتخابات کے بعد کیا جانا چاہیئے جن کا انعقاد ۱۵ نومبر ۲۰۲۰ کو ہونا طے پایا ہے کیونکہ انتخابات سے بالکل پہلے حکومت کا گلگت بلتستان کو صوبہ کی حیثیت دینا در اصل انتخابات میں لوگوں کے رویے کو متاثر کرے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ گلگت بلتستان کو جموں و کشمیر سے الگ کر کے ایک علیحدہ اکائی کے طور پر دیکھنا اس کی تاریخی حیثیت کو یکسر نظر انداز کر دینے کے مترادف ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تمام کا تمام علاقہ جو کہ موجودہ جموں، وادیٔ کشمیر، لداخ، آزاد کشمیر، گلگت، بلتستان اور دیگر شمالی علاقہ جات پر مشتمل ہے، اس سب پر بر صغیر کی تقسیم سے پہلے برطانیہ کے ما تحت صرف ایک حکومت قائم تھی جس کا حاکم ہندو مہاراجہ ہری سنگھ تھا۔ تقسیم ہند پر اس تمام علاقے میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت ہونے کے باعث اس کو پاکستان کا حصہ بننا تھا۔ لیکن عوام کی اس رائے کے بر خلاف مہاراجہ ہری سنگھ کے بھارت کے ساتھ الحاق کرنے کے نتیجے میں اس میں سے بعض علاقوں جیسا کہ جموں، وادیٔ کشمیر اور لداخ پر بھارت نے قبضہ جما لیا، جس سے اس سارے تنازعے کا آغاز ہوا۔
ہندو مہاراجاؤں کی اس خطہ ٔ ارض پر حکومت سے پہلے ۷۰۰ سال سے مسلمانوں کی حکومت چلی آ رہی تھی اس لئے یہ تمام علاقہ اسلامی تہذیب میں ڈھل چکا تھا اور اس میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ سولہویں صدی عیسوی میں تو یہ خطہ مسلم مغل سلطنت کے ایک صوبے کی سی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔ لیکن مغلیہ سلطنت کے کمزور پڑنے کے ساتھ ساتھ یہ علاقے ایک ایک کر کے مسلم حکمرانوں کے ہاتھ سے نکلتے گئے۔ احمد شاہ اس خطے کا آخری مسلمان حکمران تھا جس کی حکومت بلتستان کے علاقے تک محدود ہو کر رہ گئی تھی۔ ۱۸۴۰ءمیں جب مہاراجہ رنجیت سنگھ کی قائم کردہ سکھ ریاست نے اپنے مرکز پنجاب سے شمال کی جانب مزید پھیلاؤ کی مہم شروع کی تو جموں میں اس کے قائم کردہ گورنر گلاب سنگھ کے لشکر نے بلتستان کو بھی فتح کر لیا۔ یوں یہ تمام شمالی علاقہ رنجیت سنگھ کی سکھ ریاست کے گورنر گلاب سنگھ کے زیر تسلط آ گیا۔ پھر ۱۸۴۶ میں جب برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے سکھوں کے خلاف جنگ میں سکھ ریاست کا خاتمہ کر دیا تو انہوں نے اس تمام علاقے پر گلاب سنگھ کو مہاراجہ بنا کر اپنے حکمران کے طور پر نصب کر دیا، جس سے اس خطے پر "ڈوگرا راج" کا آغاز ہوا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت میں اور پھر برطانوی راج میں اس پورے خطے کو سرکاری طور پر "ریاست جموں و کشمیر" کہا جا تا تھا۔ برطانوی استعمار کے زیر تحت اس علاقے پر مہاراجاؤں کی حکومت کا یہ ڈوگرا راج تقسیم ہند تک کم و بیش اسی انداز سے چلتا رہا۔
بر صغیر پاک و ہند میں برطانوی استعمار کا انتظامی ڈھانچہ دہرے طرز کا تھا۔ تقسیم ہند کے وقت پورے بر صغیر کے ساٹھ فیصد علاقے ایسے صوبوں پر مشتمل تھے جن پر برطانیہ کی براہ راست حکومت قائم تھی جبکہ ۴۰ فیصد علاقہ ایسی نیم خود مختار ریاستوں پر مشتمل تھا جن پر برطانیہ پہلے سے موجود حکمرانوں کے ذریعے بلواسطہ طور پر حکومت کرتا تھا۔ برطانوی راج کے دوران " ریاست جموں و کشمیر" کا تعلق بھی موخر الذکر قسم کے علاقے سے تھا۔ برطانیہ جب ۱۹۴۷ میں بر صغیر پاک و ہند سے رخصت ہوا تو اس قسم کے علاقوں کے بارے میں یہ طے ہوا تھا کہ وہ اپنی عوام کی مرضی کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک ملک کے ساتھ ضم ہو جائیں گے، جو کہ دو قومی نظریے کے عین مطابق تھا۔ اگرچہ اس پوری" ریاست جموں و کشمیر" میں، جس میں گلگت اور بلتستان کا علاقہ بھی شامل تھا، اکثریت مسلمانوں کی تھی جو پاکستان کے ساتھ ضم ہونا چاہتے تھے لیکن اس کے با وجود تقسیم ہند کے بعد وہاں کے مہاراجہ نے اس ریاست کو پاکستان میں ضم نہ کیا۔
چنانچہ کشمیر کے ضلع پونچھ اور دیگر علاقوں میں مسلمانوں کی جانب سے مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف کچھ عرصہ پہلے سے اٹھنے والی بغاوتیں اب زور پکڑنا شروع ہو گئیں۔ ان حالات کے پیش نظر اور کشمیر کے مسلمانوں کو ان کی خواہشات کے مطابق پاکستان میں ضم کرنے کی غرض سے پاکستان کی افواج ۲۲ اکتوبر ۱۹۴۷ کو کشمیر میں داخل ہو گئیں۔ یہ دیکھتے ہی ہری سنگھ نے بھارتی حکومت سے اپنے الحاق کی درخواست کی جو کہ بھارت نے فی الفور قبول کر لی اور اپنی افواج کو ائر لفٹ کرا کر کشمیر میں اتارا۔ اس وقت پاکستان کی افواج موجودہ لائن آف کنٹرول پر واقع اری کے مقام تک پہنچ چکی تھیں۔ وہیں پر بھارتی افواج نے پہنچ کر مزاحمت شروع کی اور پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلی جنگ کا آغاز ہوا۔ اس کے بر عکس گلگت ایجنسی میں گلگت اسکاؤٹس نے ہری سنگھ کے مقرر کردہ گورنر کا تحتہ پلٹ دیا اور پھر مختلف قبائل اور افواج پاکستان کی مدد سے ۱۹۴۸ کے وسط تک گلگت کے علاوہ بلتستان کا علاقہ بھی ہری سنگھ کے قبضے سے آزاد کر لیا۔
(جاری ہے)