Tamatar, Aik Sukh Saniha
ٹماٹر، ایک سرخ سانحہ
مملکت خداد میں زندگی ہمیشہ مہنگی رہی ہے، مگر اب لگتا ہے ٹماٹر نے بھی اعلانِ آزادی کر دیا ہے۔ اب ہر فریج، ہر بازار، ہر محلے کی گلی بس ایک ہی سوال سے گونج رہی ہے: "بھائی، ٹماٹر کہاں سے لیے؟"
پہلے لوگ محبت چھپاتے تھے، اب ٹماٹر چھپاتے ہیں۔ ٹماٹر اب کوئی سبزی نہیں، برانڈ ہے۔ فیس بک پر لوگ ہاتھ میں ٹماٹر لے کر پروفائل پکچر لگاتے ہیں، کیپشن: "محبت نہیں، ٹماٹر مہنگے ہیں!" ایک بھائی کمنٹ میں لکھتا ہے: "بھائی، یہ اصلی ہیں یا فوٹوشاپ؟ لوکیشن بھی دے دو، میں فوری نکلتا ہوں!"
سبزی منڈی جانا اب میدانِ کارزار بن گیا ہے۔ کل میں نے ایک بندے کو دیکھا، بھاؤ پوچھ رہا تھا، پھر آسمان کی طرف دیکھ کر دعا کر رہا تھا۔ پوچھا: "بھائی، دعا کر رہے ہو یا حساب لگا رہے ہو؟" بولے: "دونوں! دو ٹماٹر لوں یا بچوں کے جوتے خریدوں؟"
خواتین کا نیا کاروبار بھی شروع ہوگیا: "ٹماٹر دکھانے کے پیسے الگ، تولنے کے الگ، سیلفی کے الگ!" جو سیلفی لے، پانچ روپے اضافی۔ بولتی ہیں: "مشہور ہونے کا ٹیکس ہے، بھائی، رنگ دکھانے کا معاوضہ الگ!"
اب گھروں میں فریج نہیں، ٹماٹر سیف لاکر میں رکھے جاتے ہیں۔
شادی بیاہ میں بھی ٹماٹر کا ذکر لازم ہوگیا۔ ایک دلہن کی ماں نے جہیز میں 2 کلو ٹماٹر رکھے۔ دلہا کی امی بولیں: "واہ! سمجھ دار خاتون ہیں، ہمیں رُلنے نہیں دیا!" دوسرے محلے میں لڑکی والوں نے کہا: "جہیز نہیں چاہیے، بس سال بھر کا ٹماٹر کا راشن دے دیں!"
اگر الیکشن ہوئے تو نئی پارٹی بنے گی، "تحریکِ ٹماٹر انصاف" (TTI)۔ نعرہ: "ہر گھر میں ٹماٹر، ہر دل میں سکون!" منشور: "ٹماٹر کو قومی پھول قرار دیا جائے۔ جو بندہ کیچپ ضائع کرے، جرمانہ ہو!"
ٹماٹر نے ہمیں سبق دیا زندگی میں قدر ہر اس چیز کی کرو جو کبھی عام تھی اور اب خواب بن گئی ہے۔ پہلے لوگ کہتے تھے: "ٹماٹر زیادہ ڈال دیا، سالن خراب ہوگیا!" اب وہی لوگ کہتے ہیں: "بیٹا، بس مہک لو، سالن کا دل نہ توڑو!"
شاید ایک دن میوزیم میں بورڈ لگے گا: "یہ وہ ٹماٹر ہے جو 2025 میں عوام کے ہاتھ سے نکل گیا۔ دیکھنا منع ہے، چھونا جرم ہے!"

