Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Fazal Qadeer
  4. Swat Ki Taqseem

Swat Ki Taqseem

سوات کی تقسیم

سوات، جو پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے مالاکنڈ ڈویژن کا ایک اہم ضلع ہے، کو حال ہی میں دو الگ اضلاع، اپر سوات اور لوئر سوات، میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے کیا گیا یہ فیصلہ، جس کا اعلان وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے کیا، 2025 میں عمل میں آ رہا ہے۔ بظاہر اس کا مقصد انتظامی کارکردگی کو بہتر بنانا بتایا جا رہا ہے، لیکن گہری چھان بین سے واضح ہوتا ہے کہ یہ اقدام عوام کے مفاد میں نہیں ہے۔ اس کی مثال خیبر پختونخوا کا نیا بلدیاتی نظام ہے، جو ویلج کونسل کی سطح پر متعارف کروایا گیا، مگر اس سے انفراسٹرکچر میں کوئی خاص بہتری نہیں آئی۔

تحصیل کی سطح پر اتنی قلیل فنڈنگ دی گئی کہ ایک ویلج کونسل کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہ ہو سکیں۔ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 کے تحت صوبائی اینول ڈویلپمنٹ پروگرام کا 30 فیصد لوکل گورنمنٹس کو دینا تھا، لیکن 2019-20 میں 46 بلین کے مقابلے میں صرف 3 بلین روپے جاری ہوئے، جس سے ترقیاتی منصوبے شروع نہ ہو سکے اور انفراسٹرکچر کی ترقی رک گئی۔ تحصیلوں میں وسائل کی کمی کی وجہ سے عملے کی کمی اور ناکافی انفراسٹرکچر نے ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں رکاوٹ ڈالی۔

سوات کی مجوزہ تقسیم سے عوام کو فوائد کا دعویٰ تو کیا جاتا ہے، لیکن ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ یہ محض کاغذی ہیں۔ سوات کا موجودہ رقبہ 5,337 مربع کلومیٹر اور آبادی تقریباً 23 لاکھ ہے۔ اسے دو حصوں میں تقسیم کرنے سے ہر ضلع چھوٹا ہو جائے گا اور دعویٰ ہے کہ افسران عوام کے قریب ہوں گے، لیکن یہ فوائد عملی شکل اختیار نہیں کریں گے۔ نئے اضلاع بنانے سے نئی عمارات، گاڑیاں اور عملہ درکار ہوگا، جو غیر پیداواری اخراجات ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں معاشی مسائل سنگین ہیں، یہ وسائل ترقیاتی کاموں سے ہٹ کر عوام پر ٹیکس یا دیگر بوجھ کی صورت میں پڑیں گے۔ اگر یہ تقسیم سیاسی بنیادوں پر ہوئی تو علاقائی تنازعات، جیسے وسائل کی تقسیم یا حدود کی لڑائی، بڑھ سکتے ہیں۔

ایکس پر کچھ آراء اسے "ڈیوائیڈ اینڈ رول" پالیسی کا حصہ قرار دیتی ہیں، جو اسٹیبلشمنٹ کو علاقوں پر کنٹرول آسان بناتی اور سیاسی جماعتوں میں لڑائیاں پیدا کرتی ہے۔ مقامی نمائندوں کی مشاورت کی کمی سے عوام میں عدم اطمینان بڑھ سکتا ہے۔ یہ تقسیم عوام کے مفاد میں نہیں کیونکہ یہ بیوروکریسی کو بڑھائے گی جبکہ بنیادی مسائل جیسے صحت، تعلیم اور سڑکوں کی حالت جوں کی توں رہے گی، جیسا کہ بلدیاتی نظام میں فنڈز کی کمی سے ترقیاتی منصوبوں میں تاخیر اور "تھرو فارورڈ" لائبیلیٹیز کا اضافہ دیکھا گیا۔

سوات کی تاریخی حیثیت پر یہ تقسیم گہرا اثر ڈالے گی اور اس کی شناخت کو کمزور کرے گی۔ سوات ایک قدیم ریاست تھی، جو 1969 تک آزاد رہی۔ ولی آف سوات نے جدید اصلاحات متعارف کروائیں، جیسے 1940 اور 1960 میں لڑکیوں کے لیے سکول اور کالج بنانا۔ یہ علاقہ بدھ مت، گندھارا تہذیب اور قدرتی حسن کے لیے مشہور ہے۔ 1969 میں پاکستان میں ضم ہونے کے بعد یہ ضلع بنا اور 1995 میں شانگلہ کو الگ کیا گیا۔ اس نئی تقسیم سے تاریخی مقامات جیسے مینگورہ یا کالام الگ اضلاع میں چلے جائیں گے، جو سوات کی تاریخی اور ثقافتی شناخت کو نقصان پہنچائے گی۔

ایکس پر ہونے والی بحثوں میں کہا گیا کہ اضلاع کی تقسیم شناخت کو کمزور کرتی ہے، جیسے پنجاب کی مجوزہ تقسیم۔ یہ اثر مستقل ہو سکتا ہے کیونکہ انتظامی تقسیم ثقافتی اتحاد کو پارہ پارہ کر دیتی ہے۔ شانگلہ کی مثال سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ الگ اضلاع سے حقیقی ترقی نہیں ہوئی۔ 1995 میں شانگلہ کو الگ کرنے سے کچھ فوائد تو ملے، جیسے سیاحت میں اضافہ، لیکن ابتدائی طور پر انتظامی چیلنجز، جیسے 2007-2009 میں طالبان کا اثر اور فنڈز کی کمی نے ترقیاتی کاموں کو متاثر کیا۔

سوات کی مجوزہ تقسیم بھی اسی طرح ناکام ہو سکتی ہے کیونکہ اس میں منصوبہ بندی کی کمی ہے۔ یہ خدشات کہ یہ تقسیم نئے افسران کی نوکریوں یا ٹیکس فری زون ختم کرنے کی سازش ہے، جائز ہیں۔ تقسیم سے نئی پوسٹیں بنیں گی، جیسے دو ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز، جو بیوروکریسی کے مفاد میں ہوں گی۔ پاکستان میں بیوروکریسی اکثر اپنے فوائد بڑھاتی ہے، جیسے تنخواہوں میں اضافہ۔ یہ تقسیم انتظامی بہتری کے بجائے سیاسی مقاصد کے لیے ہے۔

سوات اور مالاکنڈ ڈویژن 2025 میں اب بھی ٹیکس فری ہیں، لیکن یہ تقسیم مستقبل میں ٹیکس کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔ یہ اقدام عوام کے مفاد میں نہیں کیونکہ اس میں مشاورت اور شفافیت کا فقدان ہے۔ سوات کی تاریخی حیثیت خطرے میں پڑے گی اور شانگلہ کی مثال اس کی ناکامی کی گواہ ہے۔ یہ تقسیم وسائل کی ضیاع ہے، جیسا کہ بلدیاتی نظام میں فنڈز کی کمی سے دیکھا گیا اور یہ عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے نئے مسائل پیدا کرے گی۔ اس لیے اس تقسیم کی سخت مخالفت کی جانی چاہیے، کیونکہ یہ نہ صرف معاشی بوجھ بڑھائے گی بلکہ سوات کی تاریخی اور ثقافتی شناخت کو بھی نقصان پہنچائے گی۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam