Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Fazal Qadeer
  4. Saniha Babra

Saniha Babra

سانحہ بابڑہ

12 اگست 1948ء کا دن پشتون قوم کی تاریخ میں سیاہ حروف سے لکھا گیا۔ چارسدہ کے قصبے بابڑہ میں پیش آنے والا سانحہ، جسے پشتونوں کا کربلا کہا جاتا ہے، ظلم کی ایسی داستان ہے جو آج بھی دل دہلا دیتی ہے۔ یہ وہ دن تھا جب خدائی خدمتگار تحریک کے پرامن کارکنوں پر ریاستی طاقت نے خون کی ہولی کھیلی اور سیکڑوں نہتے لوگوں کی جان لی گئی۔

یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ خدائی خدمتگار، خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان کی قیادت میں، عدم تشدد کے فلسفے پر عمل پیرا تھی۔ یہ تحریک برطانوی سامراج کے خلاف جدوجہد کی علامت تھی، لیکن پاکستان بننے کے بعد اسے نئی ریاست کے لیے خطرہ سمجھا گیا۔ باچا خان اور ان کے ساتھیوں کی گرفتاریوں، ان کی جائیدادوں کی ضبطی اور ان پر تشدد نے سیاسی کشیدگی کو عروج پر پہنچا دیا۔

بابڑہ میں اس دن ہزاروں مرد، خواتین اور بچوں نے اپنے رہنماؤں کی رہائی کے لیے پرامن جلوس نکالا۔ ان کے ہاتھوں میں نہ ہتھیار تھے، نہ تشدد کا ارادہ۔ لیکن صوبائی حکومت نے اس احتجاج کو کچلنے کے لیے گولیوں کا سہارا لیا۔ عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ 600 سے 1200 تک لوگ شہید ہوئے۔ کچھ خواتین نے قرآن پاک سر پر اٹھا کر فائرنگ روکنے کی کوشش کی، مگر ظلم کی مشینری نہ رکی۔ شہدا کی لاشیں دریائے کابل کی نذر کر دی گئیں اور زخمیوں پر بھی رحم نہ کیا گیا۔

حکومت نے اس قتل عام کو چھپانے کی کوشش کی، دعویٰ کیا کہ صرف 15 افراد ہلاک ہوئے۔ لیکن سچ کو دبایا نہیں جا سکتا۔ بابڑہ کے بعد خدائی خدمتگاروں پر ظلم کی انتہا ہوگئی۔ گھروں کو لوٹا گیا، فصلوں کو آگ لگائی گئی اور کارکنوں کو سرعام ذلیل کیا گیا۔ عبدالقیوم خان کا وہ بیان کہ "اگر گولہ بارود ختم نہ ہوتا تو کوئی نہ بچتا" اس جبر کی شدت کو عیاں کرتا ہے۔

یہ سانحہ کیوں پشتونوں کا کربلا ہے؟ کیونکہ یہ حق کی خاطر قربانی کی داستان ہے۔ جیسے کربلا میں حضرت حسینؓ نے ظلم کے سامنے سر نہیں جھکایا، ویسے ہی بابڑہ کے شہدا نے اپنی جان دی لیکن حق سے دستبردار نہ ہوئے۔ یہ واقعہ پشتون قوم کے لیے مشعل راہ ہے کہ طاقت سے حق کو دبایا جا سکتا ہے، لیکن اس کی آواز کو خاموش نہیں کیا جا سکتا۔

آج، 77 سال بعد، سانحہ بابڑہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انصاف کی جدوجہد کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ پرامن مزاحمت ظلم کے مقابلے میں سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس سانحے سے سبق لیں اور ایسی ریاست کی تشکیل کے لیے کوشش کریں جو تمام اقوام کے حقوق کی محافظ ہو۔ بابڑہ کے شہدا کا خون آج بھی انصاف مانگتا ہے اور یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ان کی قربانی کو رائیگاں نہ جانے دیں۔

Check Also

Youtube Automation, Be Rozgar Nojawano Ka Badalta Mustaqbil

By Syed Badar Saeed