Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Fazal Qadeer
  4. Kalabagh Dam

Kalabagh Dam

کالاباغ ڈیم

کالاباغ ڈیم، جو پنجاب کے میانوالی میں دریائے سندھ پر بننا ہے، برسوں سے پاکستان میں تنازع کا باعث ہے۔ کچھ اسے ملک کی ترقی کے لیے ضروری سمجھتے ہیں، تو کچھ اسے تباہی کا سبب مانتے ہیں۔ اس تجزیے میں ہم عام آدمی کی سمجھ میں آسانی سے اس ڈیم کے اہم پہلوؤں پر بات کریں گے۔ ہم دیکھیں گے کہ یہ خیبر پختونخوا کے لیے کیا نقصانات لا سکتا ہے، پنجاب کو کتنا فائدہ ہوگا، بھارت سے آنے والے سیلابوں پر اس کا کیا اثر ہوگا اور یہ سیاسی مسئلہ ہے یا انتظامی۔

یہ ڈیم ایک بڑا منصوبہ ہے جو 3,600 میگاواٹ بجلی بنا سکتا ہے اور 6.1 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کر سکتا ہے۔ یہ پانی کھیتوں کو سیراب کرنے، سیلاب روکنے اور بجلی کی کمی دور کرنے کے لیے استعمال ہوگا۔ واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کہتی ہے کہ اس سے ہر سال اربوں روپے بچ سکتے ہیں۔ لیکن سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان اس کی مخالفت کرتے ہیں، جبکہ پنجاب اس کا حامی ہے۔

خیبر پختونخوا کے لوگوں کو ڈر ہے کہ یہ ڈیم ان کے علاقوں کو تباہ کر دے گا۔ نوشہرہ، مردان اور چارسدہ جیسے شہروں میں پانی کی سطح بڑھنے سے 3,000 ایکڑ زمین ڈوب سکتی ہے۔ اس سے تقریباً 14,500 لوگوں کو اپنے گھر چھوڑنا پڑ سکتے ہیں، جو ان کے لیے بہت بڑا نقصان ہے۔ کسانوں کی زرخیز زمینیں، جو ان کی روزی کا ذریعہ ہیں، واٹر لاگنگ سے بنجر ہو سکتی ہیں۔ واٹر لاگنگ سے زمین پانی سے بھر جاتی ہے، فصلیں خراب ہوتی ہیں اور بیماریاں جیسے ملیریا پھیل سکتی ہیں۔ ماردان سکارپ، جو زراعت کے لیے اہم ہے، کی پیداوار بھی کم ہو سکتی ہے۔ لوگوں کو اپنے قبرستانوں، مساجد اور تاریخی مقامات کے ڈوبنے کا بھی خوف ہے، جو ان کے لیے جذباتی نقصان ہوگا۔

تربیلا ڈیم کے بننے سے پہلے بھی واٹر لاگنگ سے نقصان ہوا تھا، جس سے لوگوں کا اعتماد کم ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی اسے پختونوں کی تباہی کہتی ہے۔ دوسری طرف، حامی کہتے ہیں کہ ڈیم کی سطح 915 فٹ ہے، جبکہ نوشہرہ 935 فٹ کی بلندی پر ہے، تو نقصان کم ہوگا۔ ماہرین جیسے ڈاکٹر کینیڈی اس کی حمایت کرتے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کہتے ہیں کہ ڈیم 440,000 ایکڑ زمین کو پانی دے گا اور سیلاب سے بچائے گا۔ لیکن مقامی لوگوں کے خدشات اور سیاسی مخالفت اسے متنازعہ بناتی ہے۔ اگر واٹر لاگنگ اور لوگوں کی نقل مکانی کے مسائل حل نہ ہوئے، تو خیبر پختونخوا کو بڑا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔

پنجاب کو اس ڈیم سے سب سے زیادہ فائدہ ہوگا۔ یہ 680,000 ایکڑ بنجر زمین، جیسے پوٹھوہار اور تھل کے علاقوں کو پانی دے گا، جس سے کسانوں کی فصلیں بہتر ہوں گی اور معیشت مضبوط ہوگی۔ اضافی بجلی سے پنجاب کی فیکٹریاں چلیں گی اور گھروں میں روشنی ہوگی۔ حامی کہتے ہیں کہ یہ سب صوبوں کو فائدہ دے گا۔ سندھ کو 4.75 ملین ایکڑ فٹ اضافی پانی ملے گا، خیبر پختونخوا کو 440,000 ایکڑ زمین کو پانی اور پورے پاکستان کو سیلاب سے تحفظ۔ 1991 کا واٹر ایکارڈ پانی کی منصفانہ تقسیم کی بات کرتا ہے۔ لیکن مخالفین کا کہنا ہے کہ پنجاب کو زیادہ کنٹرول ملے گا، جبکہ دیگر صوبوں کو نقصان ہوگا۔ اگر پانی کی تقسیم منصفانہ رہی، تو یہ سب کے لیے اچھا ہوگا، لیکن پنجاب کا فائدہ سب سے نمایاں ہے۔

بھارت سے آنے والے سیلابوں کی بات کریں تو دریائے سندھ کا پانی بھارت اور چین سے آتا ہے۔ بھارت نے چناب پر ڈیمز بنائے ہیں، جو پاکستان کے لیے مسائل پیدا کرتے ہیں۔ کالاباغ ڈیم مون سون کے پانی کو ذخیرہ کرکے سیلاب کی شدت کم کر سکتا ہے، جیسے 2022 اور 2025 کے سیلابوں میں دیکھا گیا۔ یہ دریائے سندھ کے بہاؤ کو کنٹرول کرے گا۔ لیکن بھارت کے ڈیمز "رن آف دی ریور" ہیں، جو زیادہ پانی نہیں روکتے اور چناب پر بڑے ذخیرے نہ ہونے سے مکمل روک تھام مشکل ہے۔ کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ چھوٹے ڈیمز اور ویٹ لینڈز موسمیاتی تبدیلی سے بڑھنے والے سیلابوں کا بہتر حل ہیں۔ ڈیم سیلاب کو کم کر سکتا ہے، لیکن بھارتی سیلابوں کو مکمل نہیں روک سکتا۔ اس کے لیے پاکستان کو بھارت سے بات چیت اور دیگر منصوبوں پر کام کرنا ہوگا۔

یہ ڈیم سیاسی تنازع ہے۔ سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی اسمبلیوں نے اس کی مخالفت کی ہے۔ سندھ کو ڈر ہے کہ اس کا ڈیلٹا خشک ہو جائے گا، جبکہ خیبر پختونخوا کو ڈوبنے کا خدشہ ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ تکنیکی طور پر ڈیم بنانا ممکن ہے، لیکن سیاسی اتفاق رائے کی کمی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ واپڈا نے منصوبے کی تیاری کی ہے، لیکن کرپشن اور شفافیت کی کمی نے اسے روکا۔ پنجاب کی وزیر مریم اورنگزیب کہتی ہیں کہ سب صوبوں کا اتفاق ضروری ہے۔ سیاسی رہنماؤں کو مل کر فیصلہ کرنا ہوگا، ورنہ یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

کالاباغ ڈیم پاکستان کے پانی اور بجلی کے مسائل حل کر سکتا ہے، لیکن خیبر پختونخوا کو زمینوں کے ڈوبنے، واٹر لاگنگ اور نقل مکانی جیسے نقصانات کا خطرہ ہے۔ پنجاب کو واضح فائدہ ہے، لیکن قومی مفاد کے لیے چھوٹے ڈیمز اور دیامر بھاشا جیسے منصوبوں پر بھی کام ہونا چاہیے۔ سیاسی اتفاق رائے کے بغیر یہ منصوبہ آگے نہیں بڑھ سکتا اور یہ بحث جاری رہے گی۔

Check Also

Dil e Nadan Tujhe Hua Kya Hai

By Shair Khan