Falasteen
فلسطین
جس طرح دن کی روشنی میں وحشت کے بھیانک سائے نے آپ کے شہر میں اپنے پر پھیلائے اور ہر طرف موت نے رقص کیا۔ آپ پر کیا بیتی یہ سننے کے لئے مجھے مریخ پر جانے کی ہرگز ضرورت نہیں۔
ایک جواں سال بیٹے کی موت اس کے خاندان کی کمر توڑ دیتی ہے، ایک جوان بھائی کا یوں اچانک بچھڑ جانا قیامت ہی ہوتا، سر سے باپ کا سایہ اٹھ جائے تو جمِ غفیر میں بھی تنہا سا لگتا ہے اپنا وجود۔۔
مجھے خبر ہے کہ ماں کا اچانک روٹھ جانا بھرے پھرے گھر کو قبرستان بنا دیتا ہے، پھر مجھے ان سب کی خبر کیوں نا ہو، وہ وزیرستانی میرے سامنے ہی تو ہیں کہ پل بھر میں جس کا خاندان لٹ گیا۔ وہ وقت جب ایک غبار نے پورے گھر کے اپنی لپیٹ میں لیا اور جب دھویں کے بادل چھوٹے تو وہ روئے زمین پر تنہا رہ چکا تھا۔۔
مجھے اتنا ہی دکھ ہے آپ پر جتنا مجھے ایلان کردی پر تھا، جتنا مجھے فلسطین کے نہتے بچوں پر ہے، مگر مجھے معاف کرنا کہ میں اپنے ہی آسنوؤں میں اتنا ڈھوبا ہوں کہ
میں اب بھی میرے زخم پورے سے مندمل نہیں ہوئے
مجھے معاف کرنا کہ میں سہ رنگی ڈی پی نہیں لگا سکتا
کیونکہ مجھ سے نہیں ہوتا کہ تمہارے دل رکھنے واسطے میں اس شخص کی مانند جھوٹی تسلی دوں جو کسی میت پر وارث کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہے کہ یہ مت سمجھنا کہ تمھارا اس دنیا میں نہیں رہا بلکہ مجھے ہی اپنا بھائی سمجھنا۔۔ اور پھر زندگی کی رنگینیوں میں گم ہو جاتا ہے۔۔
میں مگر خود زخموں سے چور آپ کے درد کا درمان کیسے کروں۔۔ مجھے مگر شکوہ ان سے ہے سے ہے کہ جس نے تفریق پیدا کی۔۔ میرے شاہد اور تیرے ڈیوڈ میں فرق کیا، وہ شاہد جو آج بھی جہاز کی آواز سنتا ہے تو سہم جاتا۔۔
وہ حیرانی سے گھر کے در و دیوار کو دیکھتا ہے کہ جانے کب دھواں سا ہوگا اور پھر میں گرد میں اٹھا ہوا اٹھونگا تو پاپا خون میں سرخ ملینگے، مجھے گلہ مگر ان سے ہے جو میرے کامران اور تیرے کیمرون میں فرق کرتے ہیں۔۔
وہ کامران جو تیزی سے گرنے والے کسی دکان کی شٹر سے اتنا خوف زدہ ہوتا اور سہم کر گھر کے دروازے میں بیٹھ جاتا ہے کہ شائد آج چاچو کی لاش آئے کیونکہ ایسے ہی سما تھا جب پاپا کو پیٹی میں بند لایا گیا۔
میرا غم مگر پہلے بھی صرف میرا ہی تھا اور آج بھی صرف میرا ہی ہے، تیرا غم دنیا سے سانجی ہے تیرادرمان کرنے والے بہت ہیں۔ مگر میری بچی آج بھی سلاخوں کے پیھچے ہے۔۔ بس اتنا ہی کہوں گا
غم یکساں ہے تیرا میرا شائد مگر
افتراقیوں سے شکوہ کنا ہوں میں