Bajaur Ki Surat e Haal Aur Jashan e Azadi
باجوڑ کی صورتحال اور جشن آزادی
ہر سال اگست کا مہینہ آتا ہے اور ہم سبز ہلالی پرچم لہراتے ہیں، قومی ترانے گنگناتے ہیں اور آزادی کے جشن میں ڈوب جاتے ہیں۔ لیکن کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟ جب باجوڑ کی گلیوں میں خوف کی سیاہ چادر بچھی ہو، جب پختونخواہ کی سرزمین پر امن ایک خواب بن کر رہ گیا ہو، تو یہ جشنِ آزادی کس کے لیے ہے؟ یہ سوال دل کو چھو کر گزرتا ہے اور روح کو بے چین کر دیتا ہے۔
باجوڑ، وہ سرزمین جہاں کے لوگوں نے اپنی آزادی کے لیے خون دیا، اپنی نسلوں کی قربانیاں پیش کیں، آج وہاں امن کی پکار گونج رہی ہے۔ امن جرگے، مذاکرات اور عارضی جنگ بندی کی باتیں تو ہو رہی ہیں، لیکن زمین پر حقیقت کچھ اور ہے۔ وہاں کے باسی اپنے ہی گھروں میں محصور ہیں، جہاں کرفیو کی زنجیریں ان کی آزادی کو جکڑے ہوئے ہیں۔ مائیں اپنے بچوں کو سینے سے لگائے خوف کے سائے میں رات گزارتی ہیں اور جوان اپنی سرزمین پر اجنبی بن کر جبری نقل مکانی کا دکھ سہتے ہیں۔ کیا یہ وہی آزادی ہے جس کا خواب ہمارے اسلاف نے دیکھا تھا؟
جب ہم جشنِ آزادی مناتے ہیں، تو کیا ہم باجوڑ کے ان معصوم شہریوں کو بھول جاتے ہیں جو دہشت گردی اور آپریشنز کی چکی میں پس رہے ہیں؟ جب ہم آتش بازی کے رنگوں میں کھو جاتے ہیں، تو کیا ہم ان آوازوں کو سننا بھول جاتے ہیں جو امن کے لیے چیخ رہی ہیں؟ پختونخواہ کے لوگ، جن کے دل وطن کی محبت سے دھڑکتے ہیں، آج اپنی ہی زمین پر بے یار و مددگار ہیں۔ ان کے گاؤں بارود کی بدبو سے بھرے ہیں اور ان کے خواب خوف کے ہاتھوں یرغمال ہیں۔
امن کوئی عیاشی نہیں، یہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ پختونخواہ میں امن کی ضرورت صرف ایک نعرہ نہیں، بلکہ ایک ایسی آواز ہے جو ہر دل سے نکلتی ہے۔ جب تک ہمارے بھائی اور بہنیں خوف کے سائے میں جیتے ہیں، جب تک ان کے گھروں سے جنازے اٹھتے ہیں، ہمارا جشنِ آزادی ادھورا ہے۔ امن جرگے کی کوششیں قابلِ تحسین ہیں، لیکن جب مذاکرات ڈیڈلاک کا شکار ہوں، جب معصوم شہریوں کا خون بہتا ہو، تو یہ کوششیں ایک خالی امید بن کر رہ جاتی ہیں۔
ہمارے وطن کا ہر شہری، خواہ وہ باجوڑ کا ہو یا پنجاب کا، اس آزادی کا حقدار ہے جو اسے خوف سے نجات دلائے۔ آزادی کا مطلب صرف پرچم لہرانا یا ترانے گانا نہیں، بلکہ اپنی سرزمین پر سکون سے سانس لینا ہے۔ آج باجوڑ کے عوام سے پوچھیں کہ آزادی کیا ہے؟ وہ آپ کو بتائیں گے کہ آزادی وہ ہے جب ان کے بچے بغیر خوف کے اسکول جائیں، جب ان کی مائیں بغیر دھڑکے کے گھر سے باہر نکلیں، جب ان کے گاؤں رات کے سناٹے میں دہشت کی بجائے سکون کی آواز سن سکیں۔
ہمیں اپنے جشنِ آزادی کو سچا کرنے کے لیے پختونخواہ میں امن لانا ہوگا۔ یہ امن جرگوں سے نہیں، بلکہ خلوص اور عمل سے آئے گا۔ جب تک ہم اپنے لوگوں کے زخموں پر مرہم نہیں رکھتے، جب تک ہم ان کی آواز کو اپنی آواز نہیں بناتے، ہمارا جشن ایک دھوکہ رہے گا۔ آئیے، اس جشنِ آزادی پر عہد کریں کہ ہم اپنے وطن کے ہر کونے میں امن کی شمع روشن کریں گے، کیونکہ سچی آزادی وہی ہے جو ہر دل کو سکون دے، ہر گھر کو روشنی دے اور ہر شہری کو عزت دے۔

