Afaq Ahmed Ki Wapsi
آفاق احمد کی واپسی
کراچی ایک بار پھر سیاسی کشمکش اور پرتشدد واقعات کی زد میں ہے۔ حالیہ دنوں میں شہر کے مختلف علاقوں میں بلدیاتی کاموں میں استعمال ہونے والے ڈمپرز کو جلانے کے پرتشدد واقعات نے نہ صرف شہریوں کو خوفزدہ کیا بلکہ یہ سوال بھی کھڑا کر دیا کہ آیا یہ واقعات کسی منظم سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہیں؟ اس کے ساتھ ہی، مہاجر سیاست کا ایک پرانا کردار آفاق احمد بھی منظر پر دوبارہ متحرک ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
مہاجر قومی موومنٹ (ایم کیو ایم – حقیقی) کے سربراہ آفاق احمد طویل عرصے سے سیاسی منظرنامے سے نسبتاً غیر فعال رہے ہیں۔ تاہم، حالیہ مہینوں میں ان کی دوبارہ سرگرمی اور جلسوں میں عوامی شرکت سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ کسی سطح پر ان کی سیاسی بحالی کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر اب کیوں؟ اور کس کے ذریعے؟
پاکستان میں ماضی کے سیاسی تجربات اس بات کے گواہ ہیں کہ بعض اوقات ریاستی ادارے یا ایجنسیاں مخصوص سیاسی چہروں کو میدان میں لانے یا فعال رکھنے کے لیے پس پردہ کردار ادا کرتی رہی ہیں، خاص طور پر کراچی جیسے حساس شہر میں جہاں امن و امان کے مسائل براہِ راست قومی سلامتی سے جڑے ہوتے ہیں۔
ڈمپر جلانے جیسے واقعات، جو بظاہر بلدیاتی ترقیاتی کاموں میں رخنہ ڈالنے کی ایک کوشش ہیں، بآسانی سیاسی پیغام رسانی یا طاقت کا مظاہرہ بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ ان واقعات کے ذریعے ایک پیغام دیا جا رہا ہو یا تو ایم کیو ایم پاکستان کو، جو اس وقت شہری حکومت میں ہے، یا پھر لندن میں بیٹھے الطاف حسین کو، جو اب بھی بعض حلقوں میں اثر رکھتے ہیں۔
پہلی بات اگر پرتشدد واقعات میں ملوث افراد کو گرفتار نہیں کیا جا رہا، تو یہ تاثر پیدا ہو سکتا ہے کہ ان کو "چھوٹ" حاصل ہے۔
دوسری بات آفاق احمد کی حالیہ سرگرمیوں کو مرکزی میڈیا میں غیر معمولی کوریج ملنا، یہ بھی اس بات کا اشارہ ہو سکتا ہے کہ انہیں دوبارہ "قابلِ قبول" بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
تیسری بات ایم کیو ایم پاکستان کی اندرونی چپقلش اور قیادت کی غیر مؤثر حکمت عملی نے ایک سیاسی خلا پیدا کر دیا ہے، جس کو پُر کرنے کے لیے آفاق احمد ایک "متبادل" کے طور پر پیش کیے جا رہے ہیں۔
ایک اور بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان اور لندن دونوں ہی مختلف وجوہات کی بنا پر زوال پذیر ہیں۔ ایک طرف، الطاف حسین کی قیادت کا جواز اب بین الاقوامی سطح پر مشکوک ہو چکا ہے، دوسری طرف ایم کیو ایم پاکستان کی کارکردگی اور قیادت پر سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ ایسے میں آفاق احمد کو میدان میں لانا شاید اسٹیبلشمنٹ کی ایک پرانی حکمت عملی کا حصہ ہو "Divide and Control"۔
آخری بات: کراچی میں ڈمپر جلانے کے واقعات، آفاق احمد کی سرگرمی اور ایم کیو ایم کی کمزوری یہ تمام عوامل مل کر ایک نئی سیاسی ترتیب کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، جس میں ریاستی اداروں کا کردار نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ آنے والے دنوں میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ آفاق احمد کو کتنا سیاسی اسپیس ملتا ہے اور آیا وہ واقعی ایک طاقتور متبادل کے طور پر ابھر سکتے ہیں یا نہیں۔