Aik Zardari
ایک زرداری
پاکستان کی حالیہ سیاسی تاریخ میں جناب آصف علی زرداری انتہائی اہمیت کی حامل شخصیت بن کر ابھرے ہیں۔ آٹھ سال کا طویل عرصہ پس دیوار زنداں گزارنے کے باوجود کسی ایک مقدمہ میں بھی انہیں سزا نہ ہو سکی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد، پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر صدر پاکستان کے بلند ترین منصب تک جا پہنچے۔ 2008 کے ابتدائی دنوں میں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کا رومانس کچھ عرصہ چلالیکن یہ تعلق دیرپا ثابت نہ ہو سکا۔
2013 کے عام انتخابات میں میاں محمد نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ نے حکومت بنائی۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ جناب آصف علی زرداری پاکستان کے سیاسی انجینئرز کی پسندیدہ شخصیت رہے ہیں۔ اور جب بھی سیاسی نظام میں کسی نوعیت کی تبدیلی درکار ہوتی ہے تو انہیں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ 2017 کے آخر میں بلوچستان حکومت کی تبدیلی کا مرحلہ ہو یا سینٹ میں اقلیتی جماعت سے تعلق رکھنے والے سنیٹر کو چیئرمین منتخب کرنا یہ جناب زرداری جیسی ذہین وفطین شخصیت کا ہی کارنامہ ہوسکتا تھا۔
تحریک انصاف کی حکومت کو ان کی سیاسی اوقات یاد دلانے کے لیے جناب حفیظ شیخ کے مقابلے میں سید یوسف رضا گیلانی کو سنیٹر منتخب کرانا یہ آصف علی زرداری کی کرشماتی شخصیت اور ان کی سیاسی بصیرت کا نتیجہ تھا۔ ان کی یہ چوٹ اتنی کاری تھی کہ جناب عمران خان کو ایک مرتبہ پھر اعتماد ووٹ لینا پڑا۔ یہ اور بات ہے کہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں جناب یوسف رضا گیلانی کامیاب نہ ہوسکے۔ 2018 کے متنازع انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی عمران خان کی حکومت کے لیے جناب زرداری مستقل خطرہ بنے رہے۔
جب سیاسی انجینئرز کے لیے عمران حکومت بوجھ بنتی نظر آئی تو ایک مرتبہ پھر آصف علی زرداری کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اور انہوں نے وہ کر دکھایا جس کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی تھی۔ ایک دوسرے کے شدید سیاسی مخالفین ایک میز پر اکٹھے کر دیے۔ شراکت اقتدار کے فارمولے طے پا گئے۔ انتہائی عصاب شکن ماحول میں انہوں نے اپنے حواس پر نہ صرف قابو رکھا بلکہ اپنے پتے انتہائی ہوشیاری سے کھیلے۔
جمہوریت بہترین انتقام ہونے کا نظریہ کچھ اس طرح ثابت کیا کہ وزیراعظم میاں شہباز شریف کے کاغذات نامزدگی پر جناب آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے دستخط موجود تھے۔ اس سارے عمل کی کنجی آخر وقت تک انہی کے ہاتھ میں رہی۔ انہوں نے یہ تک طے کیا کہ کس موقع پر کون سا سیاسی رہنما کون سی سیاسی چال چلے گا؟
مولانا فضل الرحمان کا دھرنا ہو، یا بلاول بھٹو کا مارچ، میاں نواز شریف کی جارحانہ تقریر ہو، یا مریم نواز کی خاموشی، وزارتوں کی تقسیم کا فارمولا ہو، یا اتحادیوں کے خدشات کا ازالہ ان سب جزئیات کو بڑی مہارت اور خوش اسلوبی سے طے کر کے نئی سیاسی بساط بچھا دی گئ۔ اب جناب میاں محمد شہباز شریف اقتدار کے منصب پر فائز ہو چکے ہیں۔ جناب زرداری نے بڑی مہارت سے آنے والے سال کا سارا بوجھ مسلم لیگ کے کندھوں پر ڈال دیا ہے۔
مہنگائی کے جن کو قابو کرنے کی تمام تر ذمہ داری بھی مسلم لیگی وزرا پر نظر آتی ہے، بیڈ گورننس کی وجہ سے اداروں کی تباہی کا ملبہ بھی میاں شہباز شریف پر ہی گرتا ہوا دکھائی دیتا ہے، مختلف الخیال جماعتوں کی بیڑیاں وزیراعظم پاکستان کے پاؤں میں ہیں اس لیے یہ سمجھنے کے لئے کسی سائنس کی ضرورت نہیں کہ میاں شہباز شریف کو ایک ایسے گھوڑے پر سوار کر دیا گیا ہے جس کی لگام ان کے ہاتھ میں نہیں اور وہ گھوڑا نہ صرف سرپٹ دوڑ رہا ہے بلکہ سیاسی انجینئر ز چابک سے مسلسل اس گھوڑے کی مارے جا رہے ہیں۔
پاک فوج کے متعلق مسلم لیگی قیادت کے سابقہ بیانات بھی میاں شہباز شریف کے بوجھ کا حصہ ہیں۔ ان زخموں کو مندمل ہونے میں ابھی وقت لگے گا۔ دوسری طرف پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ آج کل تحریک انصاف کے نشانے پر ہے۔ لیکن میجر جنرل بابر افتخار ڈی جی آئی ایس پی آر کی جاندار پریس بریفنگ نے جانبداری کے سارے خدشات دور کر دیے ہیں۔ انہوں نے ایک محب وطن فوج کا وہ موقف پیش کیا جو وقت کی ضرورت تھا۔ ان کی پریس بریفنگ محب وطن حلقوں کیلے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی۔
ایک وقت تھا کہ جب عمران خان پاکستان کے سب سے غیر مقبول رہنما تھے لیکن چند ہی دنوں میں ان کی مقبولیت کے ریکارڈ ٹوٹتے نظر آرہے ہیں۔ پشاور اور کراچی کے جلسے نے سیاسی پنڈتوں کو حیران کر دیا ہے، عمران خان نے ایک ہی وقت میں پاکستان بھر کے بڑے شہروں میں ہزاروں لوگوں کا مجمع اکٹھا کر کے ایک نئی مثال قائم کی ہے۔ لیکن عمران خان کو یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ بڑے جلسے انتخابات میں کامیابی کی ضمانت نہیں ہوتے۔
کراچی جلسے کی تقریر ان کے موقف میں تبدیلی کا اشارہ دے رہی تھی۔ تاہم بدگمانیوں اور بدزبانی کا اثر زائل ہونے میں بہت وقت لگے گا۔ تحریک انصاف اور حکومت باہم دست و گریباں ہیں۔ پنجاب میں کئ اہم شخصیات پر مقدمات کے اندراج کی تیاری ہورہی ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ جلد تحریک انصاف کی قیادت کوٹ کچہری کے چکر کاٹتی دکھائی دے گی اور جناب آصف علی زرداری یہ میچ دیکھ کر لطف اندوز ہو رہے ہوں گے۔
اس میچ کو مزید دلچسپ بنانے کےلیے آصف زرداری کی شدید خواہش ہے کہ جناب رانا ثناء اللہ کو وزارت داخلہ دی جاے کیونکہ کوئی دلیر شخص ہی تحریک انصاف کی مشکیں کس سکتا ہے۔ مولانا فضل الرحمان صدارت لینے پر بضد ہیں جبکہ مقتدر حلقے اس پر آمادہ نظر نہیں آرہے۔ اس لیے یہ حکومتی بندوبست مجھے زیادہ دیر چلتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ جلد یا بدیر عام انتخابات کی طرف جانا ہوگا۔ لیکن مہنگائی اور سخت اقدامات کا بوجھ اسی حکومت کے کندھے پر ہوگا۔
میاں شہباز شریف ایک باصلاحیت متحرک اور تجربہ کار راہنما ہیں پاکستان کی بیوروکریسی کو ان سے بہتر شاید ہی کوئی شخص جانتا ہو، اس لئے بجا طور پر یہ توقع ہے کہ وہ ملک کو گرداب سے نکالنے کی بھرپور کوشش کریں گے اسی طرح میاں حمزہ شہباز شریف بھی تجربے اور سیاسی جدوجہد میں والد کی مثل ہیں۔ انہوں نے طویل جیل کاٹی ہےاور سیاسی جدوجہد کے تمام تقاضے پورے کیے ہیں۔ ایک نالائق وزیر اعلی کے بعد حمزہ شہباز کی آمد صوبے کے لیے خوشگوار تبدیلی ثابت ہوگی۔
مسلم لیگ نے انتہائی کڑے وقت میں اقتدار سنبھالا ہے تاحال آصف علی زرداری کی طرف سے وزارتیں قبول نہ کرنے کا اعلان حیران کن ہے۔ وہ وزارت خارجہ اور داخلہ کے گرم تنور میں خود کو ڈالنے پر آمادہ نہیں۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ اقدامات کے نتیجے میں پاکستانی غریب عوام کی تقدیر پر کون سے اثرات مرتب ہوتے ہیں؟