Alvida Saqib Ur Rehman
الوداع ثاقب الرحمن
ایک ذہین اور بھرپور شخص چلا گیا۔ اس کی آنکھوں میں شرارت تھی، دماغ میں ابال تھا اور مزاج میں ٹھہراو تھا۔
جواں مرگ آرٹسٹ سوشانت کی طرح ستاروں اور سیاروں کے بارے میں اکثر سوچتا تھا۔ دماغ کیسے کام کرتا ہے یہ جاننے میں اسے دلچسپی رہتی تھی۔ کاسمک کیلینڈر کو انسانیت پر کارل سیگن کا احسان مانتا تھا۔
جیمز ویب ٹیلی سکوپ نے اربوں سال پرانی کہکشاوں کی روشنی کو تصویر کیا تو وہ جذباتی ہوگیا تھا۔ چندریان تھری چاند کے مدار میں داخل ہوا تو وہ خوش تھا۔ فطرت سے پیار کرتا تھا۔ موسیقی کو معجزہ سمجھتا تھا۔ بہت پیارا شخص تھا۔
ایک ہوتا ہے ذہین شخص۔ ایک ہوتا ہے عجیب سا ذہین شخص۔ عجیب سے ذہین شخص کے متعلق یہ دھڑکا مجھے اکثر رہتا ہے کہ چلتے چلتے یہ اچانک وقت کی حدود سے کہیں آگے نکل جائے گا۔ ثاقب نے بھی یہی کیا۔ جلدی چلا گیا۔ اب ہم پیچھے بیٹھے کبھی بے بسی سے ثاقب کو یاد کر رہے ہیں کبھی زندگی موت کے کھیل کے بارے میں سوچ سوچ کر پاگل ہو رہے ہیں۔
کیا موت زندگی کا علاج ہے۔ کیا زندگی موت کا علاج ہے۔ دونوں میں سے کیا آسان ہے۔ جینا یا مرنا۔ کس کی تکلیف زیادہ ہے۔ جانے والے کی یا رہ جانے والے کی۔ یہ جو ہمارے وجودی بحران ہیں، مڈ لائف کرائسس ہیں یہ سب کیا ہے۔ آگے موت کھڑی ہے، یہ سب اسی وجہ سے ہے؟
زندگی کا بھروسہ ہی نہیں ہے تو ہم خواب کیوں دیکھتے ہیں۔ خواب دیکھتے ہیں تو موت کیوں ٹانگ اڑاتی ہے۔ موت سے بڑی کوئی حقیقت ہے؟
اُس موت کا احساس بھی بڑا ہے جس کا ہمیں علم نہیں ہوتا کہ کب آئے گی۔ تب ہمیں لگتا ہے کہ لاعلمی بڑی چیز ہے۔ مگر جب موت کا ٹکٹ ہاتھ میں آجائے تب موت کا احساس لاعلمی سے بھی بہت بڑا محسوس ہوتا ہے۔
جیسے لیجنڈری اداکار عرفان خان نے آسٹریلیا کے ایک ہسپتال سے لکھے اپنے خط میں کہا تھا، میں نے درد کو خدا سے بھی بڑا محسوس کیا۔ پورا خط پڑھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ عرفان خان موت کے احساس کو درد سے بھی بڑا محسوس کر رہا تھا۔ یا شاید عرفان خان کی بات ہی ٹھیک ہے۔ موت کا علم ہوجانا بھی تو ایک درد ہے۔
یہ درد ہے یا آزادی کا احساس ہے؟ یہ درد ہے، تبھی تو موت کی نفسیات پر بات کرنے والے فرائیڈ کو موت کا احساس لرزا کے رکھ دیتا تھا۔ بلکہ یہ آزادی کا احساس ہے۔ اسی لیے تو ثروت حسین کو موت کے درندے میں ایک کشش محسوس ہوتی تھی۔ پتہ نہیں کیا ہے۔
کافکا بھی عرفان خان جیسا ہی ایک جواں مرگ آرٹسٹ تھا۔ ساری زندگی بیماریوں میں گزری، اس لیے موت اس کے آس پاس منڈلاتی رہتی تھی۔ مگر موت اصلا ہے کہاں اور کب آئے گی، اس کا واضح جواب ابھی اسے نہیں ملا تھا۔
جب تک واضح جواب نہیں ملا تب تک وہ "میٹا مور فوسس" جیسی کہانیاں لکھتا رہا۔ زندگی نے جب واضح طور پر کہہ دیا کہ اب ہمارا ساتھ کچھ دنوں کا ہے، تب "اے ہنگر آرٹسٹ" جیسی عجیب کہانی لکھ دی۔
پہلی کہانی کسی کو بھی سمجھ آسکتی ہے۔ کافی حد تک مجھے بھی۔ دوسری کہانی کو در اصل ڈیتھ سیل جیسے وارڈ میں پڑا کوئی جواں سال ذہین ثاقب الرحمن ہی سمجھ سکتا ہے۔
آپ کے پاس صرف تین مہینے کا وقت ہے۔ یہ خبر سن کر وہ شخص کیا محسوس کرتا ہے جو اپنی زندگی جی چکا ہوتا ہے؟ ظاہر ہے موت کا احساس اسے بھی گھیر لیتا ہے۔ مگر وہ احساس ناقابل بیان ہے جو اُس شخص کو گھیر لیتا ہے جس نے ابھی فقط خواب دیکھے ہوتے ہیں۔ تعبیر کا مرحلہ ابھی باقی ہوتا ہے۔
طبی عملہ، ایمبولینس کے ڈرائیور، سرد خانوں کے ملازم، پولیس اہل کار اور وکیل بھی روز ہی زندگی موت کا کھیل دیکھتے ہیں۔ مگر ایک اس شخص کا دیکھنا ہے جو خود قطار میں کھڑا ہوتا ہے۔
سوچیں ثاقب الرحمن ایک ایسے وارڈ میں تھا جہاں ثاقب سمیت تقریباََ سبھی سے لاعلمی چھینی جا چکی تھی۔ عمر کی نقدی کتنی رہ گئی ہے، وہ جان گئے تھے۔
ہر بات نہیں جاننی چاہیے۔ یہ عذاب ہے۔ یا جان لینی چاہیے۔ مگر کیوں۔ پتہ نہیں کیوں۔ شاید اس لیے کہ آپ اپنے طریقے سے روانگی کر پاتے ہیں؟ فضول بات۔ جس طریقے سے بھی کریں، ہے تو روانگی نا۔ ہاں ہے تو۔ پھر؟ کچھ نہیں۔
منٹو نے ایک کہانی میں ایک وارڈ کا نقشہ کھینچا ہے۔ ایک بیمار لڑکے کو وارڈ میں موجود سبھی مریضوں میں دلچسپی ہوتی ہے۔ خود کے سرہانے موت کھڑی ہے، مگر برابر والے بیڈ پر لیٹے لڑکے سے کہتا ہے، میں نے دعا کی ہے تم ٹھیک ہوجاوگے۔ میں بھی ٹھیک ہو رہا ہوں۔ یہ دیکھو میں اپنا وجود ہلا سکتا ہوں۔ ثاقب الرحمن کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔
ایک تحریر میں ثاقب نے لکھا، ہم روز تھوڑے تھوڑے مر جاتے ہیں۔ یہ اس نے ان مریض دوستوں کو یاد کرتے ہوئے لکھا جو اس کے ساتھ وارڈ میں تھے۔
کہتا ہے، گزشتہ سال ہسپتال سے نکلنے کے بعد ایک مریض سے رابطہ کیا تو اہل خانہ نے بتایا کہ وہ مرگیا ہے۔ یہ سن کر میں تھوڑا سا مر گیا۔ عید پر سترہ سالہ ایک مریض کو عید کی مبارک دی تو والد نے اس کے قبر کی تصویر بھیج دی۔ میں تھوڑا سا اور مرگیا۔
یہ کیسا احساس ہے۔ پڑھتے ہوئے سینے میں مار دینے والا ایک خالی پن سا محسوس ہونے لگتا ہے۔ ٹھنڈے ٹھنڈے پسینے آنے لگتے ہیں۔ زندگی ایک گھن چکر لگنے لگتی ہے۔ سوچتا ہوں کہ اس کی جگہ اگر میں ہوتا تو کیا کرتا۔ ثاقب جو کچھ کر رہا تھا، کس طاقت کے بل بوتے پر کر رہا تھا۔
قسطوں میں مرنے کے اس عمل میں بھی اس نے زندگی جینے کی وجہ ڈھونڈ لی تھی۔ کہتا ہے، چار چھ دوست مر گئے، مگر میرے بہت زیادہ دوست تو ابھی زندہ ہیں۔ پرندے چہچہا رہے ہیں اور موسیقی زندہ ہے۔ یہ چیزیں میری موت کو تھوڑا ٹال دیتی ہیں۔ کہیں یہ سب وہ جھوٹ تو نہیں بول رہا تھا؟
لیکن ایک بات تو میں خود جانتا ہوں۔ ابھی آخری بار اسے پنڈی کے ہسپتال سے بلاوا آیا تو وہ کراچی سے آکر پہلے مری چلا گیا۔ زندگی اور فطرت سے آخری بار ہم کلامی کی۔ ہجوم دیکھے۔ ہنی مون مناتے جوڑوں کو پڑھا۔ خوشی اور اداسی میں لپٹے ہوئے چہرے دیکھے۔ بے سہارا و بے آسرا بچوں سے باتیں کیں۔ آسمان پر چاند تارے دیکھے۔ بندروں کے ساتھ چھیڑ خانیاں کیں۔ دوستوں سے ملا اور ڈھیر ساری موسیقی سنی۔ وقت کی قید میں ہے زندگی مگر چند گھڑیاں یہی ہیں جو آزاد ہیں۔ (واقعی یہی گھڑیاں تھیں جو آزاد تھیں؟ یا اب جو گھڑیاں چل رہی ہیں وہ آزاد ہیں۔ پتہ نہیں)
واپس آتا ہے تو ہنستے مسکراتے ہسپتال چلا جاتا ہے۔ کچھ دن تکلیف کے گزارتا ہے۔ خبر آتی ہے، ثاقب اب ہم میں نہیں رہا۔ کیا یارر۔ یہ کیا ہے۔ مطلب یہ کیا زندگی ہے۔ بس یہ زندگی ہے؟
خیر۔ بڑا نقصان ہوگیا۔
اس نے کہا تھا، دادا مری سے واپسی پر آپ سے ملنا ہے۔ وہ واپس آیا تو ڈینگی نے مجھے ہر طرح سے نرغے میں لیا ہوا تھا۔ پلیٹ لیٹس ڈھائی لاکھ سے گر کر پانچ ہزار پر آچکے تھے۔ میں ثاقب کی تکلیف کو بس ذرا سا محسوس کرسکنے والے مرحلے میں تھا۔ ملاقات نہیں ہوسکی۔
ثاقب! ابھی موت کا علاج دریافت نہیں ہوا۔ ہم بھی قطار میں ہی کھڑے ہیں۔ بس ہمیں زندگی کا دورانیہ اور موت کی تاریخ معلوم نہیں ہے۔ اس لاعلمی نے زندگی کا دورانیہ طویل کر رکھا ہے، مگر کب تک۔ موت کی حقیقت لاعلمی اور زندگی سے بھی بڑی ہے۔
ایک دن ہم بھی تمہارے ساتھ اسی "نیست" کے مقام پر کہیں ہوں گے۔ کون تھے کہاں سے آئے کہاں گئے کسی کو خبر ہوگی نہ دلچسپی ہوگی۔ کیا کچھ شعر معنی بدل بدل کر سامنے آرہے ہیں مگر ٹھیک سے یاد نہیں ہیں اور ڈھونڈنے کا دل نہیں ہے۔ کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے۔
خیر، یہ بھی سچ ہے کہ ثاقب کا ایسے چلے جانا در اصل مجھ جیسوں کا غم نہیں ہے۔ یہ غم والدین کا ہے۔ اس عورت کا ہے جس نے ثاقب کا اس وقت ہاتھ تھاما جب اسے روانگی کا اشارہ مل چکا تھا۔ تب بھی ساتھ کھڑی رہی جب روانگی کا وقت کنفرم ہوچکا تھا۔
یہ شاد مردانوی، محمد حذیفہ، نعمان علیم، محمد دانش اور اشفاق جیسے دوستوں کا غم ہے، جو ثاقب کو اس کے خونی رشتوں سے زیادہ جانتے تھے۔
آپ سب دوستوں کا غم تسلی دلاسے کی ہر کوشش سے بڑا ہے۔ شاید موت سے بھی بڑا ہے۔ جانے والا تو چلا جاتا ہے، سہنے والے رہ جاتے ہیں۔ انسان زندہ ہے تو غم بھی زندہ ہے۔ موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں۔