Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Fakhar Alam Qureshi
  4. Balochistan Se Gilgit Baltistan Tak Ka Safar

Balochistan Se Gilgit Baltistan Tak Ka Safar

بلوچستان سے گلگت بلتستان تک کا سفر

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب قومیں اپنی تاریخ سے عبرت حاصل نہیں کرتیں اور ماضی کے زخموں کو فراموش کرکے مستقبل کی جانب پیش قدمی نہیں کرتیں، تو وہ خود کو تباہی کے دہانے پر لے جاتی ہیں۔ آج بلوچستان کی موجودہ صورتحال ہمارے سامنے ہے، جس میں امن و امان کی بجائے بدامنی، لسانی تعصب اور فرقہ واریت کی آگ میں جلتی ہوئی اس سرزمین پر روزانہ کی بنیاد پر انسانی خون ناحق بہایا جاتا ہے۔ پنجابی، بلوچی، پٹھان، سندھی کی شناخت پر نفرت اور تعصب کا زہر پھیلایا جاتا ہے، اور قتل ہونے والوں کا تعلق عموماً ان علاقوں سے ہوتا ہے جو خود وسائل سے محروم ہیں۔ ان کا واحد قصور یہ ہے کہ وہ کسی مخصوص قومیت سے منسلک ہیں۔

تاریخ کے آئینے میں غور کریں تو یہ حقیقت آشکار ہو جاتی ہے کہ جہاں کہیں بھی دہشت گردی یا ناحق خون بہایا جاتا ہے، اس کا نشانہ ہمیشہ غریب، متوسط اور مزدور طبقہ بنتا ہے۔ کوئی بلوچی یہ بتا سکتا ہے کہ جنوبی پنجاب کا ایک محنت کش یا مزدور کس طرح بلوچستان کے وسائل لوٹنے میں شراکت دار ہو سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ طاقتور ایوانوں میں بیٹھے ہوئے افراد دہشت گردی کی ذمہ داری سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں اور یہ کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں کہ دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا یا یہ کہ وہ دشمن ملک کے ایجنٹ ہیں۔

یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ دشمن قوتیں اپنے حریف ملک میں دہشت گرد کب، کیوں اور کس طرح پیدا کرتی ہیں، اور ان کے مقاصد کیا ہوتے ہیں؟ اس کا واضح جواب یہ ہے کہ دشمن ممالک دہشت گردی کو ایک حربے کے طور پر استعمال کرتے ہیں تاکہ دوسرے ملک کو عدم استحکام کا شکار کیا جا سکے۔ ان کے لیے وہ مختلف اوقات اور مواقع پر دہشت گردی کے نیٹ ورکس کو فعال کرتے ہیں۔ جب کسی ملک میں معاشی بحران، بے روزگاری، اور غربت جیسے مسائل عام ہوں، تو دشمن ممالک ان مسائل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مقامی شہریوں کو اپنے ایجنڈے کے لیے بھرتی کر لیتے ہیں۔ جب کسی ملک میں سیاسی عدم استحکام ہو، حکومت اور اپوزیشن کے درمیان شدید اختلافات ہوں یا اقتدار کی جنگ جاری ہو، تو دشمن ممالک اس موقع سے فائدہ اٹھا کر دہشت گردی کے واقعات کو ہوا دیتے ہیں۔

اگر کسی ملک میں فرقہ وارانہ یا نسلی تنازعات موجود ہوں، تو دشمن ممالک ان تنازعات کو مزید ہوا دے کر دہشت گردی کے واقعات کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ اگر عوامی سطح پر حکومت سے عدم اعتماد اور ناراضگی ہو، تو دشمن ممالک ایسے ناراض لوگوں کو دہشت گردی کے لیے استعمال کر لیتے ہیں، خاص طور پر اگر ان لوگوں کے پاس ہتھیار تک رسائی ہو یا وہ پہلے سے ہی کسی مسلح گروہ کا حصہ ہوں۔ دشمن ممالک عموماً قومی دنوں، مذہبی تہواروں، یا اہم سیاسی مواقع پر دہشت گردی کے حملے کرواتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ نقصان اور خوف پیدا کیا جا سکے۔

یہ تمام عوامل اور مواقع دشمن ممالک کے لیے ایسے مواقع فراہم کرتے ہیں جن کا استعمال کرکے وہ دوسرے ملک میں دہشت گردی کے واقعات کو جنم دے سکیں۔ ان حالات میں دہشت گرد تنظیمیں اور نیٹ ورکس کو مقامی شہریوں کے ذریعے فعال کیا جاتا ہے تاکہ ان کے مقاصد حاصل ہو سکیں۔ یہی وجوہات بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریکوں اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ اس کے باعث مقامی آبادی خود کو غیر محفوظ اور غیر منصفانہ طور پر محروم سمجھتی ہے، جو کہ شدت پسندی اور احتجاج کا باعث بنتی ہے۔

اس صورتحال کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم گلگت بلتستان کے حالات کا بھی گہرائی سے جائزہ لیں۔ آج گلگت بلتستان میں بھی وہی حربے آزمائے جا رہے ہیں جو بلوچستان میں آزمائے گئے اور اگر ہم نے بروقت ان حالات کا ادراک نہ کیا تو کل گلگت بلتستان بھی بلوچستان کی مانند حالات سے دوچار ہو سکتا ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام کی محرومیوں کا سبب بھی وہی طاقتور ایوان اور مقامی جاگیردار ہیں جو بلوچستان کو اس حال تک پہنچانے میں ذمہ دار ہیں۔

ہمیں یہ بات سمجھنا ہوگی کہ جب عوام معاشی مسائل، بے روزگاری، اور غربت کے شکار ہوتے ہیں تو وہ دشمن کے لیے ایک آسان ہدف بن جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں لوگ عزت و ناموس کی پرواہ کیے بغیر اپنی بھوک مٹانے کے لیے کسی بھی بیرونی سازش کا حصہ بن سکتے ہیں۔ یہی وہ خطرناک صورتحال ہے جو آج گلگت بلتستان میں پیدا ہو رہی ہے۔

ہمیں اپنے ملک کی سلامتی کی فکر ہونی چاہیے۔ گلگت بلتستان کی صورتحال کو سنبھالنا پاکستان کی بقاء کے لیے لازمی ہے۔ کیونکہ گلگت بلتستان کے لوگوں کو پاکستان کی نہیں بلکہ پاکستان کو گلگت بلتستان کی ضرورت ہے۔ یہ بات بھی ذہن نشین کرنی ہوگی کہ اب وہ وقت گزر چکا ہے جب مذہبی شخصیات یا سیاستدان ایک کال پر احتجاج کروا لیتے تھے اور ایک دھمکی سے احتجاج ختم ہو جاتا تھا۔ آج حالات پہلے سے یکسر مختلف ہیں۔ اب طاقت نوجوانوں کے ہاتھ میں منتقل ہو چکی ہے۔

آج ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں، مگر ہمارے مقتدر حلقے اور قانون ساز ادارے اب بھی انیسویں صدی کے فارمولے اپنائے ہوئے ہیں۔ ان کے یہ فیصلے ملک و قوم کو شدید نقصان سے دوچار کر سکتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ پانی سر سے گزرنے سے پہلے اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کریں اور ایسے متنازع فیصلوں سے اجتناب کریں جو دشمن کو موقع فراہم کریں۔ خدا ہم سب کا محافظ ہو اور تاقیامت پاکستان سلامت رہے۔

Check Also

Falasteenion Ko Taleem Bacha Rahi Hai (2)

By Wusat Ullah Khan