1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Ijaz Ahmad/
  4. Muashre Ka Almiya

Muashre Ka Almiya

معاشرے کا المیہ

یکم مئی مزدوروں کا عالمی دن ہے۔ جو کہ ہر سال بڑے تزک و احتشام سے منایا جاتا ہے۔ پورے ملک میں چھٹی کی جاتی ہے۔ لیکن حیران کن طور پر جن کا عالمی دن ہے وہ بیچارے اس دن بھی فٹ پاتھپر بیٹھے مزدوری کی راہ تک رہے ہوتے ہیں۔ اس سے بڑی اور کیا معاشرے کی منافقت ہو سکتی ہے۔

اس دن کی مسلمہ حثیت تو اغیار نے طے کی ہے۔ لیکن اسلام میں تو مزدور کے حقوق بہت پہلے طےکر دیئے گئے تھے۔ ایک مزدور کے لئے اس سے بڑھ کر حوصلہ افزاء اور مسحور کن احساس کیا ہوسکتا ہے کہ مزدوری کرنے والے کو اللہ کا دوست قرار دیا جاتا ہے۔ اس سے بڑھ کر دنیا کو کوئی ایوارڈ مقابلہ نہیں کرسکتا تمام ایوارڈ اس سے ہیچ ہیں۔

اسلام میں ملازم، خادم، مزدور تمام انسان برابر ہیں۔ جیسا کہ شاعر نے خوب کہا ہے کہ

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز

نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز

جس طرح مالک اور ملازم ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر اپنے رب کی عبادت کر سکتے ہیں۔ اسی طرح سے ایک جگہ اکٹھے بیٹھ کے کھانا بھی کھا سکتے ہیں۔ اکثر تصاویر یا ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی ہیں جہاں ملازم یا ملازمہ ایک سائیڈ پر ہوتے ہیں باقی فیملی کھانے سے لطف اندوز ہو رہی ہوتی ہے وہ ملازم یا خادمہ حسرت و یاس کا مجسمہ بنےنظرآرہےہوتےہیں۔ اسلام میں ملازمین کےساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔ پر ہم اس حکم کی پا سداری نہیں کر رہے ہیں۔

چاہے وہ جاگیر دار ہو، صنعت کار ہو، دوکاندار ہو، ٹھیکیدار، یا کسی منڈی کا پتھیار دار سب مزدور کا استحصال کرتے ہیں۔ ابن ماجہ میں ہے" اپنے خادموں اور ملازموں پر اپنے اختیارات کو غلط استعمال کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔

اسلام نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دو۔ رب کی ناراضگی اس میں بھی ہے کہ کسی مزدور کو مزدوری پر لگایا اور اس سے پورا کام لیا مگراس کے بعد اسے مزدوری نہ دی۔ ہم میں سے کتنے ہیں جو اس امر کا خیال رکھتے ہیں؟

جامع ترمذی میں مزکور ہے کہ خادم اور نوکر کا قصور معاف کرو اگرچہ وہ ایک دن میں ستر دفعہ قصور کرے، جس انسان کا دل سخت ہوتا وہی اپنے ملازمین اور ماتحتوں پر ظلم کے پہاڑ توڑتا ہے۔

آج ہمارے معاشرے میں گھریلو ملازمین کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے سوچ کر ہی سرشرمندگی سے جھک جاتا ہے۔

مزدوروں کا عالمی دن ہو اور مزدور اس دن بھی روزی روٹی کی تلاش میں سر گرداں ہو۔ اصل میں معاشرے کا سب سے پسا ہوا طبقہ یہی ہے۔ جو سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے کے لئے مارا ماراپھر رہا ہے۔ یہ لوگ اپنی عزت نفس کا سودا نہیں کرتے یہ لوگ بھیک نہیں مانگتے۔ یہ اپنے بچوں کو حلال رزق کھلانے کو فوقیت دیتے ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ رزق کی تقسیم اسی کی طرف سے ہے سب لوگ امیر یا سیٹھ ہوتے تو کارخانہ قدرت کس طرح چلتا۔ پر ہمیں اپنے اپنے گریباں میں نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ مزدور کو اس کا جائز حق دینا چاہئیےچاہے وہ انفرادی سطح پر ہو یا ملکی سطح پر۔ موجودہ مہنگائی کے دور میں مزدور کی مزدوری میں اضافہ نا گزیر ہے۔ اس پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

ہمیں اگر کوئی عہدہ یا رتبہ ملا ہے تو اپنے اندر اناؤں کے بت کھڑے نہیں کرنے چاہئے غرور تکبر سےبچنا چاہئے بھائی چارہ صلہ رحمی کو فروغ دینے سے ہی معاشرہ ابتری سے بچ سکتا ہے۔

کسی شاعر نے خوب کہا ہے کہ

ظفر آدمی اس کو نہ جانئے گا ہو وہ کتنا ہی صاحب فہم وذکاء

جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا

Check Also

Badla

By Dr. Ijaz Ahmad