1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Ijaz Ahmad/
  4. Aik Teer Se Do Shikar

Aik Teer Se Do Shikar

ایک تیر سے دو شکار

ہماری بد قسمتی رہی ہے کہ ہماری سیاسی لیڈر شپ ہو یا ہمارے قومی ادارے ان میں باہمی تال میل کا فقدان رہا ہے۔ موقع پر دور اندیشی سے کام نہیں لیا جاتا سب ڈنگ ٹپاؤ کی پالیسی پر گامزن رہتےہیں۔ کوئی بھی ذمہ داری اپنے سر پرلینے سے کتراتے ہیں۔ ہمیشہ یہی دیکھا گیا کہ کو جونہی کوئی سڑک اللہ اللہ کرکے بنتی ہے کوئی اور محکمہ ترقیاتی کام کے نام پر کدال لے کر پہنچ جاتا ہے۔ کسی محکمے سے بچ جائے تو ہم عوام بریکر بنا کر سواستیاناس کر دیتے ہیں۔

ہمارے پاس ایک ادارہ ہے جسے نادرا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اگر اس کو سینٹرل پوزیشن پر رکھکر ہم اپنی پالیسیز تشکیل دیں تو قدرے بہتر حالات ہو جائیں۔ گو کہ اس ادارے میں بھی ہمارے چندنا عاقبت اندیش بھائی بندوں نے ہمارے ہمسایہ ملک کے مہمانوں کو قومی شہریت دے کر ہمارے ملک کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے۔ اصل میں غداری کے مقدمات ان لوگوں پر چلانے چاہئے جنہوں نے اپنے ملک کی پہچان کا سودا چند کوڑیوں کے عوض کیا ایسے لوگ ناسور ہیں۔ اور کوئی رو رعایت کے مستحق نہیں۔ ان لوگوں کے غلط کام کی وجہ سے اب ان پناہ گزینوں کی تیسری نسل ہماری ہر کاروباری مارکیٹ میں براجمان ہے۔ بلکہ وہ سب بڑے بڑے پلازوں کے مالک بن گئے ہیں۔

اتنا پیسہ ان کے پاس کہاں سے آیا۔ کیا وہاں پہاڑوں پر سونا اگتا ہے؟ نہیں بلکہ انہوں نے ایک تیر سے دو شکار کئے ہیں وہاں سے اسلحہ اور منشیات ہمارے ہاں لے کر آئے ہماری نوجوان نسل کو تباہ کیا گیا اس بلیک منی کو پراپرٹی خرید کر وائیٹ بنا لیا گیا۔ اب یہ سب ایک دن میں تو نہیں ہوا شناختی کارڈ بنائے گئے۔ پاسپورٹ بنائے گئے جن اداروں نے اسمگلنگ روکنی تھی۔ ان کی کمزریوں سے فائدہ اٹھایا گیا۔ کوئی ایسی منصوبہ بندی نہیں کی گئی کہ ان کو کم از کم پراپرٹی خرید کرنے سے ہی روک دیا جاتایہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ کوئی بھی ادارہ اس نہج پر نہیں سوچ رہا جیسے یہودیوں نے فلسطینمیں زمینیں خرید کر آج فلسطینی مسلمانوں کی زندگی کو اجیرن کیا ہوا ہے مستقبل کانقشہ ادھربھی یہی دیکھائی دے رہا ہے۔

تمام بڑے شہروں میں دہشت گردی لاقانونیت کے جتنے بھی واقعات رپورٹ ہوتے ہیں زیادہ تر میں اسی قومیت کے لوگ سامنے آتے ہیں۔ یہی لوگ ان لوگوں کو اپنے ہاں ٹھراتے ہیں۔ بیرون ملک بھی منشیات وغیرہ میں یہی لوگ نظر آتے ہیں۔ ہمارے مہربانوں کی وجہ سےپاسپورٹ پاکستانی بنے ہوئے ہیں۔ بدنامی ہمارے ملک کے حصے میں آتی ہے۔ پاسپورٹ کی قدر نہ ہونے کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس کا غیر قانونی حصول عام ہے۔

مردم شماری میں اگر ان تمام اداروں کی بھی مشاورت شامل کرلی جاتی جو ملک میں امن و امانقائم رکھنے کے ذمہ دار ہیں۔ تو کافی حد تک جعلی شناختی کارڈ، قانون کو مطلوب افراد، کی شناخت فوری ممکن تھی۔ ہم مردم شماری سے مردم شناسی کا سفر باخوبی احسن طریقے سے نبھاسکتے تھے۔ ایسے عناصر جو ملک دشمنی میں ملوث تھے۔ ان کو منظر عام پر لایا جا سکتا تھا۔ اسکے ساتھ ساتھ نادرا کے پاس جو ریکارڈ وہ انیس سو ساٹھ کے ریکارڈ کے ساتھ تصدیق کرتی توایسے تمام لوگوں کا ڈیٹا سامنے آ جاتا جنہوں نے ٹمپرنگ کرکے شناختی کارڈ حاصل کئےتھےکیونکہ پناہ گزینوں کی آمد کا سلسہ اس کے بعد شروع ہوا ہے۔ ابھی بھی جب تک ہم ان عناصرکو اپنے ملک سے نہیں نکالیں گے یہ دہشت گردی کسی نہ کسی شکل میں ہماری زندگی اجیرن کئےرکھے گی۔

گھر میں دو مہمان آ جائیں تو ان کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے ہم تو اسی کی دہائی سےان لوگوں کو مہمان نوازی سے نواز رہے ہیں۔ پر اس کے بہت برے اثرات ہمارے اقدار پر پڑے ہیں۔ ملک کی معشیت کا ڈانواڈول ہونا بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ ڈالر کے اتار چڑھاؤ کا معاملہ ہو اس کاکھرا بھی ہمارے ہمسائے ملک کی طرف ہی جاتا ہے۔ ہماری اپنی ملکی ضرویات پوری نہیں ہوتی چہ جائیکہ ہم ہمسایوں کو پالتے جائیں۔ چینی آٹا گوشت غرض کہ تمام ضروریات زندگی کی اشیاءپاکستان کے عوام کے منہ سے چھین کر ان بے وفا بے غرض لوگوں کے پیٹوں میں انڈیلی جا رہی ہیں۔

ابھی بھی وقت ہے تمام ادارے مل بیٹھ کے ملکی مفاد میں فیصلہ کریں کہ ان مہاجرین کو ان کے ملک واپس بھیجا جائے جنہوں نے شناختی کارڈ جعلی بنائے وہ کینسل کئے جائیں۔ جنہوں نے شہریت بیچی ان کے خلاف سخت قانونی کاروائی کی جائے نادرا کے ادارے کو مزید فلٹرز لگانے کی ضرورتاور اپنے ملازمین پر کڑی نگرانی کی ضرورت ہے۔ عوام کے ریکارڈ کو ایسے ہی کسی کے ہاتھ میں نہیں پکڑانا چاہئے بہت سی دشمنیاں اس سے جنم لیں رہی ہیں۔ ان پر روک لگانا چاہئے۔ مہمان نوازی بہت ہوگئی ہے اور اس کی ہم نے بہت قیمت چکائی ہے اب اس سلسلے کو بند کرنا ہوگا۔

Check Also

Jamhoor Ki Danish Aur Tareekh Ke Faisle

By Haider Javed Syed