Selab Aur Hukumati Kamalaat
سیلاب اور حکومتی "کمالات"

سیلاب اپنی بے پناہ تباہ کاریوں کے اثرات چھوڑ کر رخصت ہوگیا۔ اس سیل بلا نے ہزاروں دیہات نگل لیے، سیکڑوں سڑکیں ناکارہ ہوگئیں۔ موٹروے کا ایک بڑا حصہ بھی بہ گیا، ہزاروں مکانات منہدم ہو گئے، ہزاروں سکول بری طرح متاثر ہوئے اور نہ جانے آئندہ کتنے عرصے تک یونہی رہیں گے، کئی ہاؤسنگ سوسائٹیاں ڈوب گئیں، کتنے ہی افراد آبی لہروں کی نذر ہو گئے اور جو لاکھوں بچ گئے ہیں، نہ جانے کب تک بے گھر رہیں گے اور ہر روز اپنے دل کو یہ کہ کر تسلی دیتے رہیں گے کہ مقدر میں یہی لکھا تھا۔ غریب اور مظلوم کے پاس اور ہوتا بھی کیا ہے! وہ قصور وار ہو یا نہ ہو، خود کو ہی کو ستا ہے، خود کو ہی مورد الزام ٹھہراتا ہے اور ہر ظلم اور زیادتی کو قسمت کا لکھا سمجھ کر خاموش ہو جاتا ہے۔ سچ اور حق کی آواز بلند کرنا کوئی آسان کام نہیں۔
کے پی کے کے بعد پنجاب میں سیلاب آیا تو حکومتی ایوانوں سے طرح طرح کی آوازیں بلند ہوئیں کسی نے کہا اس سال بارشیں زیادہ ہوئی ہیں، کوئی بولا قدرتی آفت ہے کیا کریں، کسی نے الزام دیا کہ بھارت نے آبی جارحیت کی ہے، کسی نے نوید سنائی کہ حکومت سیلابی صورت حال سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار ہے، لیکن جب دریائے سندھ، چناب، راوی اور ستلج اپنی جولانیاں دکھا رہے تھے، سیلابی صورت حال سے نمٹنے والے صرف بیانات داغ رہے تھے؟ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے عوام کو سیلاب کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں یہ سیلاب پہلی بار آیا ہے؟ پچاس برسوں ہے تو ہم بھی دیکھ رہے ہیں کبھی کے پی کے ڈوبتا ہے تو کبھی پنجاب اور کبھی سندھ، لیکن پچاس سالوں میں سیلاب سے بچاؤ کا کبھی کوئی طریقہ اختیار نہیں کیا گیا، کبھی کوئی پیش بندی نہیں کی گئی کوئی منصوبہ نہیں بنایا گیا۔ بس ایک ہی طریقہ برسوں سے رائج ہے کہ بڑے شہروں یا حاکموں کی زمینیں بچانے کے لیے دریاؤں کے دوسری جانب سے بند توڑ دو۔ بڑے شہروں میں تو بڑے بڑے لوگ رہتے ہیں، جاگیرداروں کے محلات بھی بڑے شہروں ہی میں ہوتے ہیں جرنیل، جج، بیوروکریٹ، سب شہروں میں مقیم ہیں، دیہات کا کیا ہے؟ چھوٹے موٹے کاشتکار، کسان، ہاری، ہٹی دکان والے، کامے اور فصلیں۔ ان کے نقصان سے بھی کام چل سکتا ہے۔ اناج کم پڑے گا تو درآمد کرلیں گے۔ خدمت کی خدمت، کاروبار کا کاروبار۔ اس کے باوجود گجرات سمیت کئی شہر ڈوب گئے۔ کمال تو یہ ہے کہ پی ڈی ایم اے بھی اب محض ایک اطلاعات دینے والا ادارہ بن کر رہ گیا ہے، اس نے باقی کام متاثرین پر چھوڑ دیے ہیں یعنی آپے بھگتو۔ تقریباََ ہر سیلاب آتا ہے اور تباہی مچا کر چلا جاتا ہے، مگر یہاں وہی بے خبری ہے اور وہی بے تیازی۔ 1973ء کے ملک گیر سیلاب پر کسی شاعر نے کہا تھا:
کس جگہ پر بند باندھیں مشورے ہوتے رہے
چیختا چنگھاڑتا پانی گھروں تک آ گیا
اس تمام تر سیلابی صورت حال میں حکومتی کوششوں کو بھی داد دینی چاہیے کہ اس کے کارندوں نے قدم قدم پر تصویر کشی کی، وڈیوز اور تصویروں کے تو انبار لگا دیے، عوام سے دور سہی، لیکن حکمراں ہاتھ ہلاتے نظر آئے۔ کشتیوں پر سوار ارباب اقتدار کی وڈیوز نے تو دھوم مچادی، چہروں پر اس قدر طمانیت اور مسکراہٹ کہ دیکھنے والوں کو پکنک کا گمان ہوا، ریسکیو والوں کا تو کیا کہنا انہوں نے تو ایک ایک شخص کو کئی کئی بار بچایا اور ہر بار نئی وڈیو بنا ڈالی اور تو اور سیلاب زدگاں میں امدادی سامان تقسیم کرتے ہوئے بھی وڈیوز بنانے کا پورا خیال رکھا گیا تاکہ حکومت کی شفافیت ہر کوئی حرف نہ آئے بریانی یا پلاؤ تقسیم کیا گیا تو کھانے والے سے پوچھا گیا: بتاؤ اس میں بوٹی ہے کہ نہیں؟ تاکہ بوئی بھی بطور ریکارڈ محفوظ ہو جائے۔
پھل بانٹے گئے تو سیب اور کیلے وغیرہ ڈبوں سے نکال کر دکھائے گئے اور ایک ایک سیب اور ایک ایک اکیلا خالی ہاتھوں میں تھمایا گیا۔ لمحیے لمحے کی وڈیو بنائی گئی تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ یہ سامان خورونوش کس مقدار میں اور کس معیار کا تھا، نہیں معلوم مگر یہ اعتراف ضرور ہے کہ اس کی پیکنگ واقعی مہنگی تھی اور کیوں نہ ہو بیرونی امداد اور "قبولیت" کا بھرم بھی تو رکھنا ہے!

