Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Abrar Majid
  4. Wukla Ko Mufadati Siasat Se La Taluq Hona Hoga (1)

Wukla Ko Mufadati Siasat Se La Taluq Hona Hoga (1)

وکلاء کو مفاداتی سیاست سے لا تعلق ہونا ہوگا (1)

وکلاء برادری مفاداتی سیاست کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔ جو ان کو گروہ بندیوں میں ڈال کر ان کی اجتماعی ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ وکلاء کا مقام صف اول کی قیادت ہے۔ ان کی سیاست اقبال اور قائد کے فرمودات کی روشنی میں جمہوریت۔ انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کا ایک نمونہ ہونی چاہیے۔

وکلاء کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے، ان کا منصب یہ تقاضہ کرتا ہے "کہ وہ اپنے پیشے کے وقار اور اعلیٰ مقام کے ساتھ ساتھ اس کے ممبر کی حیثیت سے اپنے وقار اور بلند مقام کو ہر وقت برقرار رکھے"۔ وکلاء کی یہ ذمہ داری ہے کہ ان کا ملکی معاملات پر مؤقف ان کی اکثریتی برادری کی تائید رکھتا ہو۔ اگر کوئی وکیل انفرادی طور پر یا ایک گروہ کی شکل میں کسی سیاسی جماعت کے ساتھ کوئی الحاق رکھتا ہے تو اس کو ان کے پروگرام میں شرکت کے وقت کبھی بھی وکلاء برادری کے مؤقف کا تاثر دینے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔

بارز تو انسانی حقوق، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کی علامت سمجھی جاتی ہیں۔ غیر جانبداری، شفافیت اور انصاف کے اصولوں پر عملدرآمد کروانے کی تاریخ ان کا ورثہ ہے۔ بارز تو انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والوں کو فریڈم ایوارڈز دیتی ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں عدلیہ کی بحالی کا سہرا ان کے سر ہے۔ ہر زمانے کے آمروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا ان کی پہچان رہی ہے۔ وکلاء کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ان کی اصل طاقت ان کی یکجہتی، خودداری، استقامت اور آئین و قانون کی پاسداری ہے جس نے نظام انصاف کو ان کی ڈھال بنایا ہوا ہے۔ بار ایسوسی ایشنز اور کونسلز وکلاء کی نمائندہ ضرور ہیں مگر ان کے لئے بھی کوئی مؤقف اپنانے سے پہلے برادری کی تائید حاصل کرنا ضروری ہے۔

مفاداتی سیاست کا خبت ذہنوں سے نکال کر اپنی صف اول کی قیادت کو سنبھالنا ہوگا۔ وکیل کا یونیفارم اس کی پہچان اور برادری کی ساکھ ہے۔ اس کا گاؤن اعلیٰ طرفی کی علامت ہے جس کی پشت پر جیب ہوا کرتی تھی۔ دنیا میں استاد کے شعبے کو عظیم اور وکیل کے شعبے کو اعلیٰ ظرف جانا جاتا ہے۔ اور وکیل تو ایک وقت میں دونوں کردار ادا کر رہا ہوتا ہے۔ وکیل تو اس کائنات کے خالق کی صفات میں سے ایک صفت ہے۔ اور یہ کھویا ہوا مقام اس وقت تک نہیں مل سکتا جب تک وکلاء کے اپنے اندر اس کا احساس اور اہمیت پیدا نہ ہو۔

آج جو کچھ وکلاء کر رہے ہیں اس سے پوری برادری بدنام ہو رہی ہے۔ کیا وکیل کا یہ معیار رہ گیا ہے کہ وہ سیاستدان اور جج کے درمیان رابطے کے پل کے طور پر استعمال ہو رہا ہو۔ سیاستدانوں کے غلط کاموں کو تحفظ فراہم کرکے سیاست، جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کی راہ کی رکاوٹ بن کر بدنامی کا سبب بن رہا ہو۔ رابطوں یا تعلقات کا ہونا کوئی بری بات نہیں مگر ان کا استعمال سیاست کے لئے اس طرح سے ہونا جس سے وکلاء برادری کی اجتماعی پہچان اور مفادات متاثر ہوں ٹھیک نہیں ہے۔

جو وکلاء سیاست کرنا چاہتے ہیں وہ ضرور کریں یہ انکا بنیادی حق ہے مگر وہ اس کے لئے وکلاء برادری کے نام کو استعمال نہ کریں بلکہ وہ اپنے آپ کو سیاسی جماعت کی ایک ونگ کے طور پر رجسٹرڈ کروایں اور جب بھی وہ کسی سیاسی مقصد کے لئے ہڑتال یا مظاہرے کا حصہ بنیں تو ان کی سیاسی ونگ کا نام استعمال کیا جانا چاہیے نہ کہ وکلاء کی تنظیم کے طور پر۔ اس سے ان وکلاء کی پہچان پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جن کا کسی بھی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک غیر جانبدار تنظیم اور سوچ کے حامل ہوتے ہیں۔ جب بار ایسوسی ایشنز کے انتخابات غیر سیاسی ہوتے ہیں تو پھر ان کے نمائندوں کو ہمیشہ غیر سیاسی ہی رہنا چاہیے۔

اس وقت صورتحال یہ بن چکی ہے کہ کسی بھی جماعت کا کوئی بھی دھرنا ہو یا احتجاج اس میں وکلاء بھی پہنچے ہوتے ہیں اور یہ ظاہر کیا جا رہا ہوتا ہےکہ وکلاء اس مطالبے یا احتجاج کا حصہ ہیں۔ اور ان وکلاء کے الحاق کے پیچھے انکے نظریاتی مقاصد سے زیادہ ذاتی مقاصد ہوتے ہیں جن میں سرکاری عہدوں کا حصول ہوتا ہے۔ اب یہ ایک روایت بن چکی ہے کہ جس سیاسی جماعت کو حکومت بنانے کا موقع ملتا ہے وہ آتے ہی سب سے پہلے تمام عدالتوں میں اٹارنیز، ایڈوکیٹ جنرلز اور پراسیکیوشن کے عہدوں پر تعینات افراد کو تبدیل کرکے اپنی جماعت کی وکلاء ونگ کو ابلائج کرتے ہیں اور پھر وہ ان کی سیاسی کاز کے لئے کوشاں ہو جاتے ہیں۔ الحاق، ہمدردیاں اور تعلقات اپنی جگہ مگر ان کی بنیاد پر نظام انصاف کو استعمال کرنے کی تو قطعاً اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

اس میں بار ایسوسی ایشنز کی بھی ذمہ داری بنتی ہے اور خاص کر ان وکلاء کی جن کی کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ کوئی وابستگی نہیں ہوتی وہ بارز کی سیاست سے سیاسی جماعتوں کے غالب اثرات کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ اور ایسے لوگوں کا انتخاب کریں جو وکلاء کے اجتماعی مفادات اور مسائل پر کام کو ترجیح دیں۔ جو منتخب ہونے کے بعد کسی خاص جماعت یا گروہ کے مفادات کے لئے کام نہ کریں بلکہ وکلاء برادری اور انصاف کا فروغ ان کی ترجیح ہو۔

بارز ایک ایسا ادارہ ہے جو وکلاء کی تربیت کا کام سر انجام دیتا ہے۔ ان بار ایسوسی ایشن کی قیادت کرنے والے بعد میں بڑے بڑے آئینی عہدوں پر پہنچتے ہیں اور وہاں آئینی اور قانونی ذمہ داریاں سنبھالتے ہیں۔ لہٰذا بارز کی سیاست سے یہ تاثر ملنا چاہیے کہ وہاں کی قیادت سے ابھرنے والے افراد غیر جانبدار، شفافیت، انسانی حقوق، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کا ایک عملی نمونہ ہوتے ہیں۔

تاکہ وکلاء کی برادری بارے معاشرے میں ایک مثبت تاثر بنے اور یہ کہا جائے کہ جہاں بھی انصاف کی فراہمی مقصود ہو وہاں وکلاء میں سے تعیناتیاں کی جائیں چہ جائے کہ جس طرح آج اعتراض کیا جا رہا ہے کہ ججز چونکہ وکلاء میں سے آتے ہیں اور ان کی سیاست اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ الحاق ہوتے ہیں لہٰذا یہ ان آئینی عہدوں پر بیٹھ کر انصاف کی فراہمی میں غیر جانبداری اور شفافیت کو کیسے قائم رکھ سکتے ہیں۔ بلکہ آج کل ججز کی تعیناتیوں کے عمل کو نظام انصاف پر اٹھنے والا سب سے اہم سوال سمجھا جا رہا ہے۔ اور یہ کوششیں کی جا رہی ہیں کہ اس طریقہ کار کو بدلا جائے۔

بارز ایسوسی ایشنز کو تو چاہیے کہ اس طرح کے لوگوں کا انتخاب کریں جن کو ان آئینی عہدوں کی خواہش نہ ہو بلکہ وہ اپنی بارز کی قیادت کی حیثیت کو ان آئینی عہدوں سے زیادہ معتبر سمجھتے ہوں اور ان کے اندر اپنی پوری برادری کے اجتماعی مفادات اور انصاف کی فراہمی کے عمل میں غیر جانبداری، شفافیت اور انصاف کے اصولوں کی پیروی پہلی ترجیح ہو۔ اور وہ یہ سمجھتے ہوں کہ وہ ایک ایسی برادری کی نمائندگی کرتے ہیں جو اس معاشرے کے باشعور اور آئین و قانون کو سمجھنے والا طبقہ سمجھے جاتے ہیں۔

اور ان کے شعبہ کے لحاظ سے اس ملک میں انسانی حقوق، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے لئے کوشش ان کی ایک پیشہ ورانہ ذمہ داری اور فرض ہے۔ بلکہ وکلاء بارز اور تنظیموں کے اندر ریسرچ کی کمیٹیاں ہونی چاہیے جو ہماری سیاست، معاشرت اور نظام انصاف میں درپیش مسائل کی تحقیق پر کام کریں اور اس پر اپنی اجتماعی قانونی آراء کی روشنی میں سفارشات مرتب کرکے اعلیٰ عدلیہ اور پارلیمان کو بھیجیں۔ جن کو ایک دانشمندانہ رائے کے طور پر لیا جاتا ہو۔

جب بارز ایسوسی ایشنز کو معاشرے اور عدالتی نظام کے اندر اس طرح کا مقام مل جائے گا تو میں نہیں سمجھتا کہ کوئی بھی ان کا منتخب نمائندہ کسی جج، اٹارنی یا ایڈووکیٹ جنرل کے عہدے میں کوئی کشش محسوس کرے گا۔

Check Also

Holocaust

By Mubashir Ali Zaidi