Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Abrar Majid
  4. Tehqiqat Ke Baghair Ilzamat Se Chutkara Mumkin Nahi

Tehqiqat Ke Baghair Ilzamat Se Chutkara Mumkin Nahi

تحقیقات کے بغیر الزامات سے چھٹکارہ ممکین نہیں

ہماری سیاست میں الزامات کی ثقافت عروج پکڑتی جا رہی ہے۔ ایک دوسرے پر سنگین الزامات لگائے جاتے ہیں اور بعد میں کہہ دیا جاتا ہے، وہ سیاسی بیان تھا۔ کیا سیاست جھوٹ کا نام ہے یا جھوٹ کو نالائق سیاستدانوں نے سیاست بنا دیا ہے۔ کسی بھی شعبہ کی عزت اس شعبہ سے منسلک لوگوں کے کردار سے ہوتی ہے۔ اگر ہماری سیاست میں اس طرح کے کردار کو پروان چڑھایا جائے گا۔

جس میں سچ جھوٹ کی کوئی تمیز نہیں تو پھر عزت کا بھی یہی حال ہوگا، جو آج ہو رہا ہے۔ اسی ثقافت کی وجہ سے اگر کوئی اچھے کردار کا آدمی سیاست کرنے کے لئے سامنے آتا ہے، تو لوگ اس کی ہمدردی اور اچھے کردار کی وجہ سے کہنے لگتے ہیں۔ اسکا سیاست سےکیا لینا دینا۔ سیاست تو جھوٹ کا نام ہے۔ یہ صرف عام آدمی یا عام سیاستدان کی بات نہیں بلکہ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے۔

یہاں پاکستان کی اعلیٰ ترین شخصیات پر غداری تک کے الزامات لگائے گئے۔ فاطمہ جناح پر غداری کا الزام لگایا گیا۔ اپنی سیاست کو زندہ کرنے کے لئے یہاں دوسروں پر سنگین الزامات لگا دئیے جاتے ہیں۔ اور یہ عادت اب اس طرح سے پختہ ہوچکی ہے کہ سیاست کی ایک ادا بن گئی ہے۔ جس کا معمول آپ ملاحظہ فرماتے ہی رہتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ایک تو سیاستدانوں پر سے اعتماد کا اٹھ جانا اور دوسری بڑی وجہ تحقیق کا نہ ہونا ہے۔

جو جھوٹ بولتے ہیں، جھوٹے الزامات لگاتے ہیں وہ تحقیق کے عمل کو کب مکمل ہونے دیتے ہیں۔ انکو کب گوارا ہے کہ ان کے جھوٹ کا پلندہ عوام کے سامنے کھل جائے اور رسوائی ہو۔ تو اس ثقافت کو ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ تحقیقات کے عمل کو لاگو کیا جائے تاکہ اس جھوٹی سیاست سے جان چھوٹ سکے۔ اور اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری حکومت پر آتی ہے۔ مگر حکومت دوسروں کے بارے تحقیق تب ہی کرے گی جب وہ خود اس برائی سے پرہیز کرے۔

حکومت کے وزراء کو چاہیے کہ وہ کوئی بھی بیان دینے سے پہلے تحقیق کرلیں اور بعد میں بیان دیں اور اسی طرح کسی سیاسی کردار یا پالیسی کے بارے اس وقت تک بات نہ کرے جب تک کابینہ کی منظوری حاصل نہ ہو۔ یہاں وزراء حزب اختلاف کے بیانوں کا بغیر تیاری کے آکر جواب دینا شروع کر دیتے ہیں اور اپوزیشن بھی بغیر ثبوتوں کے الزام تراشی کرتی جارہی ہوتی ہے۔

آج کل جس طرح سے دونوں اطراف سے ممبران کے بکنے کے الزامات ایک دوسرے پر لگائے جا رہے ہیں۔ اس سے ان کی پختگی اور سنجیدگی کا خوب اندازہ ہو رہا ہے۔ ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ دوسرے کی قباحتوں کے راز افشا کر رہا ہے۔ اور یہ نہیں سوچتے کہ جب وہ مخالفیں پر خریدنے کے الزامات لگا رہے ہوتے ہیں تو دوسری طرف اپنی ہی جماعت کے ممبران پر بکنے کے الزامات بھی تو لگ رہے ہوتے ہیں۔

جب جماعت اور اس کی قائدین اپنے ہی ممبر پر الزامات لگا رہے ہوتے ہیں تو پھر وہ کس طرح سے اتنی بڑی رسوائی کے بعد جماعت پر اعتماد اور ساتھ کا سوچ سکتے ہیں۔ اب موجودہ سیاسی پس منظر میں دیکھا جائے تو زیادہ تر حالیہ سالوں میں تحریک انصاف نے اپنے ممبران پر اس طرح کے الزامات لگائے ہیں۔ اپنی جماعت سے نکالا بھی ہے منحرف ہونے کے بارے الیکشن کمیشن کو لکھا ہے، ممبران کے خلاف عدالتوں میں گئے ہیں۔

ان کی ممبر شپ ختم ہونے کے بعد حال ہی میں پنجاب میں ضمنی انتخابات بھی ہوئے ہیں۔ اور اب پھر سے وہی سلسلہ شروع ہے۔ تو کیا تحریک انصاف اپنے ممبران کو انسان نہیں سمجھتی کیا وہ ان کو کموڈٹی سمجھتے ہیں جو سوچنے اور سمجھنے کی اہلیت نہ رکھتے ہوں اور جس طرح جماعت ان کو استعمال کرتی جائے وہ ہوتے جائیں۔ یہ سلسلہ اس وقت تک نہیں رک سکتا جب تک تحقیقات کا عمل شروع نہ ہو۔

اور اگر ممبران کو ڈی سیٹ ہونے کی سزا ملنی چاہیے تو بغیر ثبوت کے الزام لگانے والے کسی ممبر، عہدیدار یا جماعت کو بھی تو سزا ملنی چاہیے۔ تاکہ اس قبیح حرکت سے جھٹکارہ حاصل کیا جاسکے۔ ایک قانون ساز اسمبلی کے ممبران کسی کے غلام تو نہیں ہوتے بد اعتمادی کا یہ حال ہے کہ ہر جماعت اپنے اپنے ممبران کو ایک دو دن پہلے اکٹھے کر کے ایک ہوٹل میں بند کر لیتی ہے۔

حتیٰ کہ ان کے فونز کی بھی نگرانی شروع ہوجاتی ہے۔ اور جو اپنی آزاد مرضی سے ووٹ نہیں دینا چاہتے ان کا گھیراؤ کیا جاتا ہے حتیٰ کہ ان پر تشدد بھی کیا جاتا ہے۔ اور یہ الزامات ہمیشہ جھوٹے بھی نہیں ہوتے۔ اس کی کئی مثالیں بھی موجود ہیں۔ پچھلے سینٹ کے الیکشنز میں بھی اس طرح کے شواہد ملے تھے اور اسی طرح عدم اعتماد کے وقت سندھ ہاؤس میں جو تماشہ لگا وہ بھی کوئی قابل تحسین عمل نہیں تھا۔

بعد میں ان روابط کی تصدیق بھی ہو گئی، مگر اس پر کوئی خاص عمل نہ ہو سکا۔ پھر ظلم تو یہ ہے کہ اس پر آئین کی تحریف بھی اپنی مرضی سے کر لی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ عدالتیں بھی صاف الفاظ کی موجودگی کے باوجود متنازع فیصلے صادر کر دیتی ہیں۔ جس سے سیاسی عدم استحکام کی رہتی سہتی کسر بھی نکل جاتی ہے۔ اس ساری صورتحال کا تعلق اخلاقی پستی سے ہے اور اس سے دو طرح کی باتوں کا احتمال ہوتا ہے۔

پہلی صوت تو یہ بنتی ہے کہ اگر ہماری قومی نمانیدہ قانون ساز مجلس کے ممبران کی اخلاقی سطح یہ ہے تو پھر باقی معاشرے کا کیا حال ہوگا اور اگر باقی معاشرہ ٹھیک ہے تو پھر اس کا مطلب ہے کہ ہمارا طرز سیاست اور طریقہ انتخاب کے نظام میں خرابی ہے۔ جس میں اچھے کردار کے حامل لوگ سامنے نہیں آسکتے، بلکہ موجودہ کردار اور خصلتوں کے لوگ سیاست میں آئے ہوئے ہیں۔

جن کو نہ جھوٹ پر شرم آتی ہے اور نہ کسی پر بغیر ثبوت کے الزام لگانے پر نہ الزامات پر کوئی شرمندگی ہوتی ہے اور نہ ہی عدم اعتماد پر جو گھوڑوں کی طرح بکتے اور خریدے جاتے ہیں۔ یہ معاملہ بہت ہی سنجیدگی سے سوچنے کا ہے۔ جب اس طرح کی اکثریت سیاست میں ہوگی اور ملک کے معاملات سنبھالے گی تو پھر ان سے ملکی بہتری کو توقع بھی اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے علاوہ کچھ نہیں۔

عوام کو جھوٹوں کی حوصلہ شکنی کرکے اس قبیح حرکت کو قومی داغ سمجھ کر اس کو دھونے کی ضرورت ہے۔ اس میں سوشل میڈیا کی جھوٹی خبروں کا بھی کردار ہے۔ جو ویوز کی خاطر عوام کو گمراہ کر رہے ہیں حکومت کو چاہیے کہ اس کے بارے لائحہ عمل بنا کر عوام کو ایسی وڈیوز کو رپورٹ کرنے کا طریقہ بتائے اور حکومتی ادارے ان کو عوام کی نشاندہی پر بلاک کرتے جائیں اور ان پر تادیبی کاروائی بھی کی جائے۔

عوام ایسی وڈیوز کو سوشل میڈیا کمپنی کو بھی رپورٹ کریں، اس کا طریقہ یہ ہے کہ وڈیو کے نیچے تین ڈاٹس بنی ہوتی ہیں، وہاں کلک کریں تو آپ کے سامنے رپورٹ کی آپشن آجائے گی اس کو کلک کرکے طریقہ کار کے مطابق اس وڈیو کو رپورٹ کرتے جائیں۔ ایک ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیں اور پروپیگنڈا کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

حکومت کو ایسے اکاونٹس جہاں سے ایسی وڈیوز جھوٹ والے تھمنیل یا کانٹنٹس کے ساتھ اپ لوڈ کی جارہی ہیں کی میڈیا پر فہرست جاری کرتے رہنا چاہیے۔ ان شرپسند جھوٹے کرداروں کو بے نقاب کرکے اس قبیح عمل کا قلع قمع کرنا چاہیے۔ عوام کو خیال رکھنا چاہیے، جس بھی وی لاگر کی جھوٹی پیشینگوئیاں غلط ثابت ہوتی ہیں۔ ان کو دیکھنا بند کر دیں۔

Check Also

Aalmi Siasat 2024, Tanz o Mazah Ko Roshni Mein

By Muhammad Salahuddin