Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Abrar Majid/
  4. Supreme Court Ke Faisle Per Awami Perception Aur Qanooni Taqaze

Supreme Court Ke Faisle Per Awami Perception Aur Qanooni Taqaze

سپریم کورٹ کے فیصلے پرعوامی پرسیپشن اور قانونی تقاضے

سپریم کورٹ کے فیصلے پر اس وقت جو تبصرے کئے جا رہے ہیں۔ ان سے ایک ایسا تاثر پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ گویا پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت سے اس کا نشان چھین کر ووٹرز کو اپنے رائے کے حق سے محروم کیا گیا ہے۔ جو بات کافی حد تک ٹھیک ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس کا اصل ذمہ دار کون ہے یا سپریم کورٹ کے فیصلے میں کوئی آئین و قانون کی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی؟

سپریم کورٹ کے کئی ایسے کورٹ رپورٹرز جو ایک غیر جانبدار ماضی رکھتے ہیں بھی اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن ان کی اس تنقید کی بنیاد پبلک پرسیپشن کو بنایا جارہا ہے کہ اس سے قاضی فائز عیسیٰ کے بارے عوام کی سوچ پر برے اثرات پڑیں گے اور اسے پری الیکشن رگنگ کہہ کر ثاقب نثار کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے جسے میں ٹھیک نہیں سمجھتا۔ اس لئے کہ عدالتیں انصاف کرتے ہوئے عوامی پرسیپشن کو یا سیاسی جماعتوں کی مقبولیت کو نہیں دیکھا کرتیں بلکہ آئین و قانون کو دیکھنا ہوتا ہے۔ جس کی پاسداری کا انہوں نے حلف اٹھایا ہوا ہوتا ہے۔

اور رہی یہ بات کہ ان کی خلاف عوامی رائے خراب ہوگی تو ججز کو اس بات کا خیال قطعاً نہیں رکھنا ہوتا۔ یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ اگر کسی کے حق میں فیصلہ آجائے تو وہ تعریف کرتا ہے اور اگر خلاف آ جائے تو تنقید شروع کر دی جاتی ہے جس کا تعلق ہماری اخلاقیات سے ہے اور اس کا حل یہ ہے کہ ہر کوئی اپنی اصلاح کی کوشش کرے۔ کئی قومی اخبار بھی اس طرح کی ملی جلی سوشل میڈیا سے انکی ذاتی آراء کو اٹھا کر ایسا تاثر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جو انتہائی قابل افسوس ہے۔

جہاں تک عوامی پرسیپشن کی بات ہے تو جہاں ایک جماعت اس پر تنقید کرے گی تو وہاں بہت ساری سیاسی جماعتوں کے قائدین، کارکن اور عوام اس پر اعتماد کا اظہار بھی کر رہے ہونگے جس کی بنیاد وہ آئینی و قانونی پہلو ہونگے جن کا اعتراف خود پی ٹی آئی کے وکلاء اور کارکنان بھی کر رہے ہیں کہ انٹرا پارٹی انتخابات کے انعقاد میں ان سے غلطیاں ہوئی ہیں۔ لیکن ان کا موقف یہ ہے کہ اس کی اتنی بڑی سزا نہیں دی جانی چاہیے تھی۔

اگر غلطیاں ان کی ہیں اور اس پر فیصلہ الیکشن کمیشن نے اسی جماعت کے عہدیداران کی درخواستوں پر کیا ہے۔ جن کا موقف یہ ہے کہ ان کو ان کے بنیادی رائے اور قیادت کے حق سے محروم کیا گیا ہے، تو پھر اس کا سارا ملبہ سپریم کورٹ پر کیسے ڈالا جاسکتا ہے یا سپریم کورٹ سے یہ امید وابسطہ کرنا کہ وہ سیاسی جماعت کی غلطیوں کی سزا آئینی و قانونی پہلوؤں کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک آئینی ادارے الیکشن کمیشن کی رسوائی اور حوصلہ شکنی کرتے ہوئے کسی جماعت کو سہولت فراہم کرتے ہوئے کرے تو یہ ٹھیک سوچ نہیں۔ کیا یہ ایک آئینی ادارے کو اپنے اختیارات کے استعمال میں پابند اور ان میں دخل اندازی نہ شمار ہوتا اور اس سے الیکشن کمیشن کے صحیح اقدامات پر ان کو تنقید کا نشانہ بنا کر ان لوگوں کے موقف کو تائید ملتی جو ان پر جابنداری کے الزامات لگا رہے تھے اور اس سے الیکشن کمیشن کی آئینی رٹ بھی متاثر ہوتی۔

جو نقاط الیکشن کمیشن نے اٹھائے تھے ان پر سپریم کورٹ اپنی فائنڈنگز دینے کی اصولی طور پر پابند تھی۔ جن نقاط پر عدالت میں ڈیبیٹ ہوئی، جن میں الیکشن کمیشن کے اختیارات کی آئینی و قانونی حیثیت اور دو برابر درجہ رکھنے والی عدالتوں سے رجوع کرنے کا اصول جس کے تحت تحریک انصاف کو حق پہنچتا تھا کہ وہ کسی بھی ہائیکورٹ میں جا سکتے تھے۔ لیکن ایک دفعہ ایک عدالت میں چلے جانے کے بعد وہ اصولاً پابند تھے کہ وہ اس مقدمے کے وہاں سب جیوڈس ہوتے ہوئے کسی دوسری ہائیکورٹ میں نہ جاتے، جس پر دونوں اطراف سے آرگیو کیا گیا، جس کی تحریک انصاف نے خلاف ورزی ہی نہیں کی بلکہ اس کو پشاور ہائیکورٹ سے چھپایا بھی گیا۔ کیا ان سب آئینی و قانونی نقاط کو عدالت عوامی پرسیپشن پر قربان کر دیتی اور اپنے لئے اور ہائیکورٹس کے لئے انصاف کے عمل میں مسائل پیدا کر دیتی اور اس فعل کو قانونی حلقوں میں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا بلکہ مستقبل میں عدالتوں کو اپنی غلیطوں کا اعتراف کرتے ہوئے اصلاح کے عمل سے گزرنا پڑتا اور وہ موجودہ ججز کو برے لفظوں سے یاد کر رہے ہوتے۔ جب موجودہ ججز خود اصلاح کی راہ پر گامزن ہیں تو وہ اس طرح کی غلطیوں کے مرتکب کیسے ہوسکتے تھے۔

اور یہ فیصلہ تینوں ججز نے متفقہ طور پر دیا ہے اور سپریم کورٹ کے تمام ججز اپنے عہدے اور اختیارات میں برابر ہیں یوں ایک متفقہ فیصلہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ فیصلہ ایک مضبوط فیصلہ ہے۔ جس پر تنقید کا نشانہ محض قاضی فائز عیسیٰ کو بنانا بھی انصاف اور دانش کے تقاضوں کے برعکس ہے۔ سپریم کورٹ کیسے قانونی اور سیاسی جماعت کے اپنے ہی بنائے ہوئے آئین کی خلاف ورزی اور ایک آئینی ادارے کی اختیارات کو محض عوامی پرسیپشن کی بنیاد پر نظر انداز کر سکتی ہے؟ اور نہ ہی دوسری جماعتوں کے ماضی میں کروائے گئے انٹرا پارٹی انتخابات پر استدلال اس کا جواز فراہم کر سکتے ہیں کیونکہ ان کو نہ تو یہاں چیلنج کیا گیا ہے اور نہ ہی ان کے کسی عہدیدار نے ماضی میں کوئی ایسا چیلنج کیا ہے کہ ان کی حقوق کی خلاف ورزی وہئی ہے اور اس مقدمے میں ان کے فریق نہ ہونے کی وجہ سے ان کا موقف لیا گیا تھا۔ الیکشن کمیشن بھی اس نقطے پر بنیادی فرق کی وضاحت پیش کر چکا تھا۔

اور جو لوگ سپریم کورٹ پر بے جا تنقید کر رہے ہیں۔ ان کو پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے میں آئینی و قانونی پہلوؤں پر بھی غور کرنا چاہیے کہ انہوں نے کسی طرح سے تحریک انصاف کو ایک آئینی ادارے کے اختیارت کو پابند کرتے ہوئے فیصلہ دیا اور اس بارے تحریک انصاف کے دوستوں کو بھی تبصرے کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا کہ سپریم کورٹ میں اس فیصلے کو قائم نہیں رکھا جاسکے گا اور تاریخ یہ ثابت کرے گی کہ یہ فیصلہ ٹھیک کیا گیا ہے۔

جو لوگ انتخابی نشان کو جمہوریت سے جوڑ کر اسے عوام کے آئینی حق رائے دہی کی خلاف ورزی کہہ رہے ہیں۔ ان کو پارٹی کے اندر جمہوریت کی اہمیت کا بھی خیال رکھنا چاہیے، جو جمہوریت کی اصل بنیاد ہے۔ جس پر جمہوری طاقت قائم ہوتی ہے۔ اس لئے بجائے اس کے اس کو تنقید بنایا جائے اس کو جمہوری ضرورت سمجھتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو بھی مجبور کیا جانا چاہیے کہ وہ بھی اپنے انٹرا پارٹی انتخابات کے اندر جمہوریت لائیں۔

لہذا میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح کے تبصروں کو عوامی پرسیپشن کی بنیاد پر کسی کی ذاتی رائے کا درجہ تو دیا جا سکتا ہے یا کسی کے دل میں عوامی یا سیاسی جماعتوں کی ہمدردیوں اور خواہشات کی بنیاد پر حمائت تو کہا جا سکتا ہے۔ لیکن انصاف پر مبنی تبصروں کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔ اصول کسی کی حمائت، ہمدردی کو ملحوظ خاطر نہیں رکھتے بلکہ انصاف کے پہلو کو مد نظر رکھتے ہیں۔

یہ بھی ایک مصمم اصول ہے کہ ججز کو کبھی بھی کسی دباؤ میں آکر فیصلے نہیں کرنے چاہیں خواہ وہ عوامی ہوں یا کسی اور کی طرف سے۔ اگر آج قاضی فائز عیسیٰ یا دوسرے فاضل ججز پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ دے دیتے تو کہا جانا تھا کہ انہوں نے پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹرولنگ کی وجہ کے دباؤ میں آکر ایسا فیصلہ دیا ہے گویا وہ ان سے ڈر گئے ہیں تو اس سے ایک بہت ہی خطرناک تاثر پیدا ہوتا۔ جس سے نہ صرف ان کی ذات کی رسوائی ہوتی بلکہ پورے ادارے کی بھی بدنامی ہوتی اور اس سے عدلیہ متنازع ہوجاتی جیسا کہ ماضی کے فیصلوں میں ہوتا رہا ہے۔ عدالتوں کو اپنے فیصلوں کے اندر آئین و قانون، اس کی تشریحات اور ان کی بنیاد پر ماضی میں کئے گئے فیصلوں کے درمیان ایک ہم آہنگی رکھتے ہوئے فیصلے کرنے ہوتے ہیں تاکہ صرف انصاف ہی نہ ہو بلکہ ہوتا ہوا دکھائی بھی دے۔

ان تبصروں میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ججز کو ایک بڑی سیاسی جماعت کو نقصان سے بچانے اور عوامی پرسیپشن کو ٹھیک رکھنے کے لئے کوئی درمیانی راہ نکالنی چاہیے تھی جو انتہائی غیر موزوں بات ہے۔ عدالتیں آربیٹریٹرز نہیں ہوتیں بلکہ وہ انصاف کے ادارے ہوتے ہیں۔ اس لئے ان کو آئین و قانون کے مطابق انصاف فراہم کرنا ہوتا ہے۔ ایسے ہی درمیانی راہ نکالنے والی عدالتوں کو پہلے ماضی قریب میں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

جہاں تک ججز کے رویے کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے تو یہ ہر کسی کو حق پہنچتا ہے کہ وہ اس کی نشاندہی کرے جس میں وہ حق بجانب ہیں ججز کو یہ ضرور خیال رکھنا چاہیے کہ ان کے کنڈکٹ پر سوال نہ اٹھیں کیونکہ ججز کا کنڈکٹ بھی انصاف کے عمل کا ہی حصہ ہوتا ہے اور اگر وہ اس میں کسی کی تضیک یا اس کو سنے جانے کا موقعہ فراہم نہیں کریں گے تو یہ انصاف کے اصولوں کے منافی ہے۔ جس کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔

لیکن اس فیصلے سے میں سمجھتا ہوں کہ ایک سیاسی جماعت کے انتخابی نقصان سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا جس کے وہ خود ذمہ دار ہیں۔ لیکن اس فیصلے کو آئین و قانون کے خلاف تو کم از کم نہیں کہا جاسکتا۔ جہاں تک پی ٹی آئی کے سیاسی نقصان کا حل ہے تو وہ ان کو اپنی حکمت عملی سے تلاش کرنا ہوگا۔

Check Also

Science Aur Mazhab

By Muhammad Saeed Arshad