Parliman Judgon Ka Hisab Apni Zimmedarion Se Balaye Taq Chahti Hai
پارلیمان ججوں کا حساب اپنی ذمہ داریوں سے بالائے طاق چاہتی ہے
آجکل پارلیمان اور عدلیہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑی نظر آتی ہے۔ پہلے تو صرف کمنٹس، قراردادوں تک معاملہ محدود تھا مگر عدالت عظمیٰ کے باہر احتجاج کے بعد سے اسمبلی میں ججز کے خلاف تقاریر ایک معمول بن گیا ہے اور کل خواجہ آصف نے کھلے لفظوں ججز کے ساتھ جنگ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ججز کو حساب دینا ہوگا بلکہ انہوں نے زندہ اور مرے ہوئے سب ججز کے حساب کے لئے ایک کمیٹی بنانے کا مطالبہ کر دیا ہے جو ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کی نااہلی تک کا حساب لے۔
انہوں نے اپنی تنخواہ کا بتاتے ہوئے ججز سے بھی ان کی تنخواہوں، مراعات اور وضائف کا پوچھ لیا۔ اور یہ بھی پوچھا کہ انہوں نے کتنے کتنے پلاٹ لیے ہوئے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ عدالت کی تاریخ قوم کے سامنے رکھی جائے کہ انہوں نے کیا کیا گل کھلائے ہیں۔ انہوں نے برملا کہا کہ ہم اپنے وزیراعظم کی گردن کا حساب مانگتے ہیں۔ جو آئین و قانون کی باتیں کرتے ہیں وہ قوم کو بتائیں کہ انہوں نے کتنی دفعہ آئین و قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔ ہم اپنے پورکھوں کا حساب دیتے ہیں وہ اپنے پورکھوں کا حساب دیں۔
یہ کونسی عدلیہ ہے جو پنچائیت بن کر مذاکرات کے لئے مجبور کر رہی ہے۔ وہاں بیٹھے ہوئے پندرہ لوگوں کا آپس میں اتفاق نہیں اور ہمیں مذاکرات کے درس دیتے ہیں۔ پہلے اپنے آپ کو تو ٹھیک کر لیں۔ جس طرح سے کھل کر پارلیمان میں عدلیہ کے کارناموں پر آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی ہیں ان سے لگتا ہے کہ اب یہ سلسلہ بند ہونے والا نہیں اور عدلیہ کو واپس اپنی آئینی حدود میں جانا پڑے گا۔ سیاستدانوں بارے سسیلین مافیا جیسے القابات اور عوامی نمائندوں کی تذلیل اور نااہلیوں کی قوم سے معافی مانگنا پڑے گی۔
جب وہ ایک قاضی کی کرسی پر بیٹھ کر کہتے تھے "دو چار ایم پی ایز کو تو وہ کھڑے کھڑے گھر بھیج سکتے ہیں" کیا آئین و قانون اور ان کے عہدے کی عزت و تکریم کے مطابق تھا۔ کیا اس میں تکبر کا تاثر نہیں ملتا تھا؟ اور آج اگر وہ ایک مبینہ طور پر سیاسی جماعت کی ٹکٹیں سینما کی ٹکٹوں کی طرح بیچ رہے ہیں تو ان کے کردار اور عمل میں کیا مماثلت پائی جا رہی ہے اس کو جاننا قوم اور قومی نمائندوں کا حق نہیں ہے۔
لیکن پارلیمان پر بھی یہ ذمہ داری آتی ہے کہ جب وہ ججز سے حساب مانگتے ہیں تو ان کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا حساب دینا پڑے گا۔ وہ عوامی نمائندگی کے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ریاست کے وسائل سے مستفید ہونے والے ریاستی اداروں میں برابری کو قائم رکھنے کے ذمہ دار ہیں۔ اگر آج مختلف محکوں کے اندر امتیازی سلوک پایا جا رہا ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے۔ کون ملک کے خزانے سے تنخواہیں، وظائف اور مراعات کے تعین کے اختیارات رکھتا ہے۔
قوم آپ سے حساب مانگتی ہے کہ ایسا کیوں ہوا اس کا آغاز کیسے ہوا؟ جہاں تک میری یاداشت میں آتا ہے اس کا آغاز جناب شہباز شریف صاحب نے جب وہ وزیر اعلیٰ پنجاب تھے لاہور ہائیکورٹ کی تنخواہوں اور الاؤنسز کو بڑھا کر کیا تھا جس کی مثال میں باقی صوبوں اور وفاق کی عدلیہ کے ملازمین بھی احتجاج اور مطالبات کرکے اپنی بڑھواتے چلے گئے اور اب ان کی ہوس کہیں تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ جس کی تشویش اب پارلیمان کو لاحق ہونی شروع ہوگئی ہے۔
جس وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو عدالت نے نااہل کیا تھا کیا اسی نے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کے ساتھ شدت بازی میں عدلیہ کے ملازمین کی تنخواہیں اپنے ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے سے نہیں بڑھائی تھیں تاکہ وہ عدلیہ کے ملازمین کی ہمدردیاں حاصل کر سکیں۔ پھر اس کو مثال بنا کر صوبوں نے اپنی تنخواہیں بڑھا لیں۔ حکومت اس کی تحقیق کرکے اپنی غلطیوں کا ازالہ کرے اور برابری کا قانون نافذ کرے۔ پارلیمان کی بالادستی کے لئے امتیازی سلوک کا ختم کرنا بھی ضروری ہے۔
میرا سوال ہے کہ کیا یہ تنخواہیں انہوں نے بغیر کسی قانون یا پیشگی حکومت کی اجازت کے ہی بڑھا لی ہیں یا اس میں حکومت کا بنایا ہوا کوئی قانون بھی موجود ہے۔ کیا یہ مضحکہ خیز بات نہیں کہ قانون کی خالق جماعت ریاست کے ایک ادارے سے یہ سوال کرے کہ آپ اتنی تنخواہیں کیوں لے رہے ہیں؟ کیا وہ اپنی تنخواہین بڑھانے میں خود مختار ہیں۔ اگر ایسا بھی ہے تو اس کو انصاف کی مطابقت میں کس نے لانا ہے؟
آپ نے جب کفائت شعاری کے لئے پالیسی بنائی تھی جس میں تمام محکموں سے ایک سے زیادہ پلاٹ واپس لینے کی سفارشات تھیں تو اس پر عمل درآمد میں کیا چیز رکاوٹ ہے۔ کیا آپ نے اپنی ہی مرتب کردہ ان سفارشات پر عمل کروایا ہے۔ محض ڈھنڈورے پیٹنے سے حل نہیں نکلتے۔ جب یہ سارے امتیازی سلوک آپ کے علم میں ہیں اور اس پر ریاست کے ملازمین کے اندر احساس محرومی اور تفریق بھی پایا جاتا ہے اور وہ آئے روز اس پر احتجاج بھی کرتے ہیں تو پھر آپ اس امتیازی سلو ک کو ختم کیوں نہیں کر دیتے؟ آپ کو کس سے اجازت لینے کی ضرورت ہے۔
آپ نے خود قانون بنانا ہے ایک ہی قانون کے ذریعے سے تمام سرکاری محکموں کے اندر برابری کو رائج کر دیں۔ یا پھر عوام یہ سمجھے کہ آپ نے کرنا ورنا کچھ نہیں بس نعرے ہی لگانے ہیں۔ پھر ان نعروں سے تو یہ بھی تاثر لیا جا سکتا ہے کہ آپ صرف عدلیہ ہی کی کیوں بات کرتے ہیں کیا باقی محکموں کے درمیان امتیازی تفریق نہیں ہے۔ کیا آپ کے پارلیمان نے ملازم دوسرے محکموں سے زیادہ تنخواہیں نہیں لے رہے؟ تو اس سے تو یہ تاثر بھی ابھر سکتا ہے کہ کہیں آپ عدالتوں کو بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جہاں تک تعلق ہے عدلیہ کے ججز کے مس کنڈکٹ کی یا آئین و قانون سے منافی فیصلوں کا تو اس کا حل سیاسی جماعتوں کا جو حکومت میں بھی شامل ہیں کا عدلیہ کے سامنے کھڑے ہو کر چیف جسٹس سے استعفے کا مطالبہ نہیں بلکہ اس کی قانون سازی اور معقول مطالبات تھے۔ انکو آئینی اور قانونی حدود کے اندر رہ کر مطالبات کرنے چاہیے تھے۔ انہیں سپریم جوڈیشل کمیشن کو سرد مہری ختم کرکے کاروائی کو شروع کرنے پر زور دینا چاہیے تھا۔
جن ججز کے خلاف ریفرنس ہیں انکو سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس بلا کر کیمرے کے سامنے ان پر کاروائی کا آغاز کیا جائے۔ اس بات کا اظہار جسٹس فائز عیسیٰ بھی پہلے کر چکے ہیں اور انہوں نے واضح کہا ہے کہ قانون میں کیمرے کے سامنے کاروائی کی کوئی ممانعت بھی نہیں۔ اگر چیف جسٹس کے خلاف بھی پارلیمانی کمیٹی کی طرف سے ریفرنس دائر ہو جاتا ہے تو پھر چیف جسٹس صاحب کو اس کاروائی میں جوڈیشل کمیشن کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔
پھر سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ کے متعلق مقدمے میں بھی فل کورٹ کا مطالبہ ہوتا۔ چونکہ یہ معاملہ چیف جسٹس کے اختیارات بارے ہے لہٰذا ان کا ذاتی طور پر اس بنچ کا حصہ ہونا بھی مناسب نہیں۔ جن میں سیاسی اور آئینی معاملات میں فل کورٹ کا مطالبہ جسے وہ پہلے بھی اپنی درخواستوں میں کہتے رہے ہیں، پر زور دینے کی ضرورت تھی۔ اسی طرح جن ججز کے خلاف الزامات ہیں ان کو سیاسی بنچز کا حصہ نہ بنانے کا مطالبہ بھی جائز تھا۔
سیاسی جماعتیں وہاں دباؤ بڑھاتیں اور پارلیمان ان کی روشنی میں قوانیں مرتب کرتی۔
مطالبات بھی ایسے ہونے چاہیے جن کو سننے والا بھی سراہے اور جن میں کوئی آئینی، قانونی اور اخلاقی وزن بھی ہو۔ اور جس سے ادارے کے مستقبل بارے کوئی خطرات پیدا ہونے کا احتمال بھی نہ ہو۔