Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Abrar Majid
  4. Islahat Lani Hongi

Islahat Lani Hongi

اصلاحات لانی ہونگی

نیا قانون جس میں ریویو کا حق ملا ہے اس سے چیف جسٹس کی سوؤ موٹو کی اجارہ داری کم ضرور ہوئی ہے مگر یہ کوئی مکمل حل نہیں کیونکہ بنچز بنانے کا اختیار تو چیف جسٹس کے پاس ہی ہے۔ اب نظر ثانی کے بنچ میں ججز کی تعداد تو بڑھے گی مگر کون کون بیٹھے گا یہ اختیار تو ابھی بھی چیف جسٹس کے پاس ہی ہے اور وہ اپنے بندوبست میں تو ابھی بھی کسی حد تک مطلق العنان ہی ہیں۔ اس سے پہلے سووموٹو کے خلاف اپیل کی اجازت نہیں تھی مگر اس قانون کے تحت ریویو کی صورت میں اچھی تبدیلی لائی گئی ہے۔

اب یہ ریویو ایک اپیل کی طرح کا ہوگا جس میں نظر ثانی وہی ججز نہیں کریں گے بلکہ اس میں لارجر بنچ بنایا جائے گا اور اس سے کسی حد تک چیف جسٹس کے اختیارات جن کے تحت وہ سوؤ موٹو لیتے ہیں ان کے فیصلوں کو نظر ثانی میں لارجر بنچ کے سامنے عدالتی رائے کا سامنا ہوگا اور اس میں بہتری آئے گی۔ لہٰذا اب چیف جسٹس کو سوچنا پڑے گا کہ ریویو میں ان کے بندوبست کو شرمندگی کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ اور دوسرا یہ ایک دیرینہ مطالبہ تھا کہ ان سوؤ موٹو مفادات عامہ کے تحت لئے جانے والے ایکشنز کے خلاف بھی اپیل کا حق ہونا چاہیے جو اب پورا ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور یہ خوش آئند بات ہے۔

جہاں تک انتظامی اختیارات کے استعمال کا معاملہ ہے اس کا تو کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل قانون میں بھی کوئی جامع حل نہیں۔ جس میں بنچز کی تشکیل اور سوؤ موٹو کا اختیار تین رکنی ججز کی کمیٹی کو دیا گیا ہے تو وہاں بھی اگر کل تین سینئر ترین ججز ہم خیال آ جاتے ہیں تو پھر ہم نیا قانون متعارف کروانا شروع کر دیں گے۔ آخر یہ معاملہ کہاں تک چلے گا۔ دراصل ان چیزوں کا بنیادی تعلق ہماری سوچ و تربیت اور اخلاقیات سے ہے اور اس طرح کے مسائل کا حل تو آئین و قانون کے بس کا روگ بھی نہیں ہے۔

دوسرا ان کا تعلق ان حلقوں کی ذمہ داری سے بھی ہے جنہوں نے پاکستان کے ستر سالوں میں ججوں کی تعنیاتی پر کوئی ایسا قانون نہیں بنایا جس سے قابل، اہل اور اچھے اخلاق کے ججز ہمیں میسر آ سکتے۔ وہاں بھی تعلقات اور مفادات کو ہی پیمانہ بنائے رکھا گیا ہے اور جس کی مشق آج بھی جاری ہے۔ بنیادی حل کے طور پر ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار میں اصلاحات لائی جانی چاہیں اور دوسرا ججز کے احتساب کے عمل کو بھی فعال بنانے کی کوشش کی جائے۔

کیونکہ جب تک ان کے اندر جوابدہی کا احساس نہیں ہوگا تو وہ اپنی اداؤں پر کیسے غور کر سکتے ہیں۔ پاکستان جوڈیشل کونسل کو بھی فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ اور ججز کے خلاف جو بھی ریفرنس آئے اس کی کاروائی بلا تفریق اور مکمل ہو۔ ایسا نہیں کہ ا گر جج صاحب اپنے تمام تر مفادات کے ساتھ ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کر لیتے ہیں تو ان کے خلاف مس کنڈکٹ کی انکوائری بھی ختم ہو جائے۔

ایسے میں تو پھر جج صاحب کھل کر اپنی خواہشات پر کھیلیں گے اور جب سمجھیں گے کہ اب بچنے کی امید نہیں رہی تو پھر وہ باعزت گھر چلے جائیں گے اور آنے والوں کے لئے بھی حوصلہ افزاء مثالیں قائم کر جائیں گے۔ جو کچھ پچھلے پچہتر سالوں سے ہو رہا ہے۔ کوئی شاذ و ناظر مثال ہی ہے جس میں ججوں کا احتساب ہوا ہو اور جب انتقام کی کاروائی کرنی ہوتی ہے تو پھر سپریم جوڈیشل کونسل کو بھی سپیڈیں لگ جاتی ہیں جیسا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے معاملے میں ہوا تھا۔

اہم اور قابل غور نقظہ ججز کی تنخواہیں، وظائف اور مراعات ہیں جن کی گونج آجکل پارلیمان سے لے کر سرکاری دفاتر اور عوامی محفلوں تک سنائی دے رہی ہے۔ ان کو بھی کسی برابری کے پیمانے میں لانے کی ضرورت ہے۔ وگرنہ موجودہ حالات میں تو کوئی بھی پروفیسر لگنے سے زیادہ سپریم کورٹ میں چپڑاسی لگنے کو ترجیح دے گا۔ کیونکہ نہ جسمانی کام ہے، نہ دماغی پیسوں کی بھرمار اور یہی اس قوم کی نفسیات ہیں۔ جب تنخواہیں اور مراعات باقی اداروں کے برابر ہونگی تو پھر کم از کرم مالی فوائد والی کشش تو ختم ہو جائے گی اور ایسے لوگ آئیں گے جن کو مالی لالچ نہیں ہوگا۔ اور معاشرے کے اندر برابری کو یقینی بنانا تو ویسے بھی پارلیمان کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے اگر وہ سمجھیں تو۔

اس معاملے میں وزیر قانون کو اپنی برادری کی اداؤں پر بھی غور کرنا ہوگا۔ اور کچھ بنیادی اصلاحات لا کر وہاں بارز کے ماحول کو بھی بدلنا ہوگا۔ بارز ایک ایسا ادارہ ہے جو وکلاء کی تربیت کا کام سرانجام دیتا ہے۔ ان بار ایسوسی ایشن کی قیادت کرنے والے بعد میں بڑے بڑے آئینی عہدوں پر پہنچتے ہیں اور وہاں آئینی اور قانونی ذمہ داریاں سنبھالتے ہیں۔ لہٰذا بارز کی سیاست سے یہ تاثر ملنا چاہیے کہ وہاں کی قیادت سے ابھرنے والے افراد غیر جانبدار، شفافیت، انسانی حقوق، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کا ایک عملی نمونہ ہوتے ہیں۔

تاکہ وکلاء کی برادری بارے معاشرے میں ایک مثبت تاثر بنے اور یہ کہا جائے کہ جہاں بھی انصاف کی فراہمی مقصود ہو وہاں وکلاء میں سے تعیناتیاں کی جائیں چہ جائے کہ جس طرح آج اعتراض کیا جا رہا ہے کہ ججز چونکہ وکلاء میں سے آتے ہیں اور ان کی سیاست اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ الحاق ہوتے ہیں لہٰذا یہ ان آئینی عہدوں پر بیٹھ کر انصاف کی فراہمی میں غیر جانبداری اور شفافیت کو کیسے قائم رکھ سکتے ہیں۔

بارز ایسوسی ایشنز کو تو چاہیے کہ اس طرح کے لوگوں کا انتخاب کریں جن کو ان آئینی عہدوں کی خواہش نہ ہو بلکہ وہ اپنی بارز کی قیادت کی حیثیت کو ان آئینی عہدوں سے زیادہ معتبر سمجھتے ہوں اور ان کے اندر اپنی پوری برادری کے اجتماعی مفادات اور انصاف کی فراہمی کے عمل میں غیر جانبداری، شفافیت اور انصاف کے اصولوں کی پیروی پہلی ترجیح ہو۔ اور وہ یہ سمجھتے ہوں کہ وہ ایک ایسی برادری کی نمائندگی کرتے ہیں جو اس معاشرے کے باشعور اور آئین و قانون کو سمجھنے والا طبقہ ہیں اور اس لحاظ سے ملک میں انسانی حقوق، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے لئے کوشش ان کا ایک پیشہ ورانہ ذمہ داری اور فرض ہے۔

بلکہ وکلاء بارز اور تنظیموں کے اندر ریسرچ کی کمیٹیاں ہونی چاہیے جو ہماری سیاست، معاشرت اور نظام انصاف میں درپیش مسائل کی تحقیق پر کام کریں اور اس پر اپنی اجتماعی قانونی آراء کی روشنی میں سفارشات مرتب کرکے اعلیٰ عدلیہ اور پارلیمان کو بھیجیں۔ جن کو ایک دانشمندانہ رائے کے طور پر لیا جاتا ہو۔ جب بارز ایسوسی ایشنز کو معاشرے اور عدالتی نظام کے اندر اس طرح کا مقام مل جائے گا تو میں نہیں سمجھتا کہ کوئی بھی ان کا منتخب نمائندہ کسی جج، اٹارنی یا ایڈووکیٹ جنرل کے عہدے میں کوئی کشش سمجھے گا۔

اگر وکلاء کے ریاست اور معاشرے میں پروفیشنل کام کی اہمیت کا اندازہ ہو جائے تو ان کی تعلیمات اور تجربات سے فائدہ اٹھانے کے ہر شعبہ زندگی میں ہزاروں مواقعے ہیں جن کے کردار سے ہمارے کئی مسائل ختم ہو جائیں گے۔ قانونی پیچیدگیاں ختم ہو جائیں گی اور اس سے عدالتوں پر بوجھ ختم ہو جائے گا۔ جب ہر کام قانون کے مطابق ہونا شروع ہو جائے گا تو لوگوں کے درمیان تنازعات پیدا ہی نہیں ہونگے۔

اور جب تنازعات پیدا ہی نہیں ہونگے اور اداروں کے معاملات بہتر ہونگے تو معاشرے کے اندر قانون اور قانون دانوں پر اعتماد بڑھے گا اور وہ خود ہی ان کو اہمیت دینا شروع کر دیں گے۔ لیکن اس کے لئے وکلاء کو خود کام کرنا ہوگا۔ اس پر ریسرچ کی جائے کہ کہاں کہاں وکلاء اپنی قانونی مہارتوں سے مستفید کر سکتے ہیں اور پھر اس پر عملدرآمد کے لئے حکومت کو سفارشات دی جائیں۔

جیسا کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں جائداد کی خرید و فروخت میں ڈاکومنٹیشن کی تیاری سے لے کر منی ٹرانزیکشن تک کا عمل وکلاء کے ذریعے سے ہوتا ہے جس میں تمام قانونی ریکوائیرمنٹس پوری ہوتی ہیں اور کسی بھی تنازع کا چانس نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے۔ اسی طرح باقی کاروباری معاملات میں بھی اگر وکلاء کی قانونی آراء شامل ہو جائیں تو ہر ایک کے حقوق محفوظ ہو جائیں گے اور لوگوں کے اندر ریاستی نظام پر اعتماد بڑھے گا اور قوم و ملک کی توانائیوں، وسائل اور صلاحیتوں کا ضیاع ختم ہو کر اس کا مثبت استعمال شروع ہو جائے گا جس سے ترقی کا پہیہ چلنا نہیں بلکہ دوڑنا شروع ہو جائے گا۔

Check Also

Pakistani Ki Insaniyat

By Mubashir Aziz