Imran Khan Maqbooliat Ki Bulandiyon Par
عمران خان مقبولیت کی بلندیوں پر
اسے اس کا نصیب سمجھئے یا اس کی حکمت عملی کے نتائج، قوم کی اس سے بلا مشروط محبت یا اس کے سیاسی مخالفین کے خلاف بغض اور نفرت کا اظہار یا پھر اس کا دبنگ انداز سیاست لیکن اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ اس وقت اس کی سیاست مقبولیت کی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ خاص کر سوشل میڈیا پر تو اس کی تصویر کے ساتھ اس کے حق میں چند الفاظ ہی توجہ حاصل کرنے کے لئے کافی ہیں۔
اور اس کے خلاف آپ جتنے بھی دلائل کے ساتھ اظہار رائے کر لیں نفرت اور غضب کے علاوہ کمنٹس میں کوئی بات آپ کو ڈھونڈنے سے بھی کم ہی ملے گی۔ اس کے چاہنے والوں کے نزدیک پزیرائی کی صرف ایک ہی قابل قبول صورت ہے اور وہ ہے عمران خان کی تعریف۔ جو بھی اس حکمت عملی کو اپنا لے اس کی رائے کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔
اس وقت جتنے بھی سوشل میڈیا کے مقبول ترین تجزیہ کار یا صحافت کی کسی بھی قسم سے تعلق رکھتے ہوں ان افراد میں سے اکثریت کی مقبولیت کا سبب عمران خان کا نام ہی ہے۔ اور وہ با امر مجبوری یا شوق اپنی رائے اور صحافت کو قائم رکھنے کے لئے عمران خان کی تعریفوں کے گیت گانے کا کوئی نہ کوئی جواز تلاش کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ کئی اس وقت نامی گرامی سوشل میڈیا ایکٹوسٹ تو پیداوار ہی عمران خان کی محبت میں گھائل سوچ کی ہیں اور انہوں نے اسی کی بدولت اپنا نام کمایا ہے اور ان کے پاس جانبداری کا ہتھیار ہی سب سے بڑا سرمایہ ہے۔
تحریک انصاف کی قیادت میں تو کوئی بھی کسی بھی درجے کی مقبولیت نہیں رکھتا بجائے اس کے کہ وہ عمران خان کے کتنا قریب ہے اور اس قربت کا معیار صرف اور صرف یہ ہے کہ وہ عمران خان کے بیانیے کا کس حد تک دفاع کرنے میں کامیاب ہے۔ تحریک انصاف کا فلسفہ سیاست ہی عمران خان کے سیاسی بیانوں کا باجواز مفہوم اور تشریحات کو بنا سجا کر پیش کرنا ہے۔ اور جو اس فن کو جتنی مہارت سے ادا کر لے گا اس کی اتنی ہی مقبولیت بڑھتی جائے گی اور جو اس سے پیچھے ہٹے گا اس کی اس وقت تک خیر نہیں جب تک عمران خان کے دل میں اس کے لئے نرم گوشہ پیدا نہ ہو۔
اس کے بلا مشروط چاہنے والوں پر ایک مشکل دور آیا تھا جب مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت تھی اور ان کی پالیسیز، غربت، مہنگائی اور بیروزگاری کے سبب عوامی غیض و غضب کا نشانہ بنی تھیں اور ان کی مخالف سیاسی جماعتوں کے حکومت مخالف بیانیے کو عوام میں پزیرائی حاصل ہو رہی تھی اور عوام کی سب سے زیادہ امیدیں پاکستان مسلم لیگ سے ان کی سابقہ کارکردگی کی بنیاد پر وابسطہ کی جا رہی تھیں۔
اور یہ سمجھا جا رہا تھا کہ مسلم لیگ نون ہی واحد جماعت ہے جو پاکستان کو اب اس معاشی تباہی کے گھمبیر حالات سے نکال سکتی ہے اور اس کی وجہ ان کی دو ہزار تیرہ سے لے کر اٹھارہ کی کارکردگی تھی جس میں انرجی کرائسز سے لے کر دہشت گردی تک اور مواصلات کی سہولتوں سے لے کر معاشی ترقی کی ضامن سی پیک جیسے منصوبوں کا آغاز تھا جس کا سبب ان پر چائنہ، عالمی برادری اور کاروباری طبقہ کا اعتماد تھا۔
اور تحریک انصاف کے مرکز میں اقتدار کے آخری مہینوں میں تو صورتحال یہ تھی کہ ان کی جماعت کے اپنے ممبران بھی مسلم لیگ نون کی ٹکٹوں کے لئے لائن میں لگے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ ان پر بھی کسی طرح سے نظر کرم ہو جائے مگر پھر حالات نے کچھ یوں کروٹ بدلی کہ نہ صرف چند ہفتوں میں حکومت تبدیل ہو گئی بلکہ وہ سارے کا سارا تحریک انصاف کے خلاف غیظ و غضب بھی حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی تحریک انصاف کے کاندھوں سے اتر کی مسلم لیگ نوں کے کاندھوں پر جا ٹھہرا۔ اس کی وجہ ان کی مرکز میں حکومت بنانے میں وزارت عظمیٰ اور اعلیٰ عہدوں کا حصول تھا۔
اب موجودہ سیاسی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو سب سے زیادہ سیاسی نوک جھوک اور الزامات تراشیوں کی سیاست تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون کے درمیان ہو رہی ہے۔ ہر آئے روز آپ کانفرنسز دیکھتے ہونگے دونوں جماعتوں میں وفاداری کا درد رکھنے والے کارکن اور قائدین بگڑتی ساکھ کو دیکھتے ہوئے جلسے جلوسوں اور پریس کانفرنسز کے ذریعے سے ایک دوسرے کی کمزوریوں، کوتاہیوں اور نااہلیوں کے پردے چاک کر رہے ہوتے ہیں۔ جس میں مذہبی کارڈ سے لے کر غداری کے الزامات تک کا ہر حربہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ اور اس عمران خان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا احساس مسلم لیگ نون کی قیادت کو بھی ہو گیا ہوا ہے جس کا تاثر ان کے بیانوں اور چہروں کے اتار چڑھاؤ سے بھی ہوتا ہے۔
ان کے بیانیے میں جتنے بھی معیشت بارے حقائق اور کوششوں کے قصیدے ہوں وہ اس وقت بڑھتی مہنگائی سے اجیرن عوام کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتے کیونکہ لوگوں کی سوچ اس یکدم مہنگائی کی یلغار کا سبب ان کی نااہلی ہی سمجھ رہے ہیں اور رہی سہی کسر سیلاب کے ڈیزاسٹر نے نکال دی ہے۔ یہ پچھلی حکومتوں پر تباہی کے الزامات تو ہر دور میں لگتے ہیں اس لئے عوام کے لئے یہ معمول کی سیاست سے زیادہ کوئی وزن نہیں رکھتے۔ اور یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا کی جنگ میں بھی وہ بری طرح سے پٹ رہے ہیں۔
وفاقی حکومت میں موجود باقی تمام سیاسی جماعتیں خاموشی سے اپنی ساکھ کو بچانے کی ترکیبوں میں مگن حالات کو دیکھ رہی ہیں کہ وہ کیا کروٹ بدلتے ہیں اور یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف سیاسی کمپین میں آمنے سامنے نظر آتی ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں میں جمیعت علماء اسلام کے علاوہ سب جماعتیں کسی بھی وقت کسی بھی طرف جانے کا سوچ سکتی ہیں ان جماعتوں کا حکومت میں رہنا مجبوری ہوتی ہے اور وہ اکیلے حکومت بنا نہیں سکتیں لہٰذا ان کا بھاری پلڑے کی طرف جھکاؤ ان کی مجبوری ہوتا ہے بشمول پیپلز پارٹی وہ بھی کسی وقت اپنی سمت کو بدل سکتے ہیں۔
جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت پاکستان میں یہ دو سیاسی جماعتیں ہی مقابلے کے پوزیشن میں ہیں اور سیاسی انتشار اور معاشی بحران کی وجہ سے مسلم لیگ نون حکومت میں ہونے کی وجہ سے دن بدن تنقید کا نشانہ بنی ہوئی ہے اور تحریک انصاف کے خلاف عوامی نفرت کا پیمانہ کم ہوتا جا رہا ہے۔ انکو یہ موقع مل گیا ہے کہ وہ اپنے دور کی بلند و بند مہنگائی کو اب کی آسمان کو چھوتی مہنگائی کے مقابلہ میں پیش کر کے عوام کو اپنی طرف مائل کریں۔
عمران خان کی مقبولیت کی ایک اہم وجہ تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی ہم خیال پالیسی بھی ہے جس کی وجہ سے ان تمام جماعتوں کے نظریاتی یا حالاتی مخالفین بھی ان کے خلاف اظہار رائے کے لئے تحریک انصاف کے طرف راغب نظر آتے ہیں۔ جو اس وقت ان کے پاس واحد سہارا ہے۔ تحریک انصاف کی محبت میں گھائل اس دور کی عوام کو کوئی راہ نہیں سوجھ رہی تھی کہ وہ کس طرح سے عوام کے غضب کو کم کریں جس کو مسلم لیگ نون کی حکومت حاصل کرنے کی غلط حکمت عملی نے آسان بنا دیا اور ان کو وہ جواز مل گیا جس سے وہ اپنی انا اور ہٹ دھرمی کو تھپکی دے سکیں۔
مسلم لیگ نون وقتی طور پر ہر میدان میں تحریک انصاف کا مقابلہ کرنے میں کم تر دکھائی دے رہی ہے جس کی وجہ حالات ہی ہیں جن میں کچھ قدرتی آفات کی صورت میں ہیں اور کچھ ان کے شوق حکومت کے سبب اور ان سب کا فائدہ تحریک انصاف اٹھا رہی ہے اور دو تہائی ملک کے اندر صوبائی حکومت ہونے کے باوجود صوبائی حکومتوں کی کارکردگی بھی عوام کی توجہ سے چھپی ہوئی ہے اور مسلم لیگ نون عوام کی توجہ کو اس طرف مائل کرنے میں بھی ناکام نظر آ رہی ہے۔
عمران خان کی جارحانہ سیاست بھی ماضی کی روایات سے کچھ ہٹ کر ہے جس میں وہ ان پہلوؤں کو بھی سرعام عوام میں زیر بحث لے آئے ہیں جن کو ماضی میں پردوں میں پیچھے رکھنے کا رواج تھا، جس میں اسٹیبلشمنٹ کا سیاست میں عمل دخل بھی شامل ہے اور وہ اس میں اپنی حمائت میں کئے گئے عوامل اور اپنی ہمدردیوں اور حمایت سے بھی پردے چاک کرنے سے نہیں کتراتے۔
اور آج کل آرمی چیف کی تقرری کو بھی عوامی بحث تقرار تک پہنچا دیا ہے اور فوج کے سربراہان کے نام وہ کھل کر اپنے پیغامات کو بھی عوامی جلسوں کی زینت بنا دیتے ہیں اور پاکستان کی سیاسی تاریخ کے غیر آئینی سوانحات کے سبب عوام میں اس وقت موجود اینٹی اسٹیبلشمنٹ سوچ خواہ وہ قومی ہو یا بین الاقوامی کی ہمدردیاں بھی وہ بڑی سفاکی اور چالاکی سے سمیٹ رہے ہیں اور جب مسالہ تیز ہو جائے تو وہ اس پر یو ٹرن بھی لے لیتے ہیں مگر انہوں نے عوامی پزیرائی کی حد تک فائدہ تو بہر حال حاصل کیا ہوا ہی ہے۔
آج کل چیف سے ملاقات کی خبریں بھی میڈیا کا موضوع بحث بنی ہوئی ہیں اور جس کا فائدہ بہرحال عمران خان کو ہی جاتا ہے۔ اس سے ماورا کہ اس کے کیا نتائج نکلے ہیں صرف ملاقات ہی اہمیت سے خالی نہیں۔ کیونکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ان ملاقاتوں کے اثرات سے انکار کسی طرح سے بھی ممکن نہیں۔
جمہوریت کا تقاضہ بھی ہے کہ اکثریتی عوامی حمایت رکھنے والی جماعت کو موقع ملنا چاہیے جس کے لئے تحریک انصاف دن رات کوشان ہے مگر فی الحال حالات عوام کے پاس جانے سے قاصر ہیں۔ مسلم لیگ نون کو بہر صورت اپنی کھوئی ہوئی ساکھ حاصل کرنے کے لئے کارکردگی دکھا کر مہنگائی کے جن کو قابو کرنا ہو گا جس کے لئے ان کو بھی وقت درکار ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کو کچھ وقت مل جائے۔
اور عمراں خان اس وقت اپنی ساکھ سے فائدہ اٹھانے کے لئے سخت بے چین ہیں اور اس بے چینی میں وہ سخت الفاظ کی چنگاریاں چھوڑ کر اپنے لئے مشکلات بھی پیدا کر سکتے ہیں۔ اگر انہوں نے اپنی مقبولیت کو قومی، جمہوری اور آئینی اقدار کا سہارا نہ دیا تو یہ کبھی بھی کسی بھی وقت دھڑام سے نیچے گر سکتی ہے اور پھر یہ ان کی ماضی کی قومی کھیل یا قومی سطح کے فلاحی کاموں کی بنیاد پر بنی ہوئی پزیرائی کو بھی اپنے نیچے دفن کر سکتی ہے لہٰذا ان کو چاہیے کہ وہ اپنے مقبولیت کو عوامی حقیقی پزیرائی سے بھی ہم آہنگ کروائیں۔