Chief Justice Ke Ikhtiyarat
چیف جسٹس کے اختیارات
آئین کے تحت سپریم کورٹ کے پریکٹس اینڈ پروسیجرز کے اصول خود ادارے نے اکثریتی رائے سے بنائے ہوئے ہیں اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو یہ انتظامی اختیارات دئیے گئے ہیں بشمول بنچز کی تشکیل اور سوؤ موٹو کا استعمال جن پر اعتراضات اور تحفظات کی ایسی مثال پہلے موجود نہیں تھی بلکہ ایک رکھ رکھاؤ ہوا کرتا تھا مقدمے کی کسی فریق کو بھی اگر جج پر ذاتی رنجش یا کسی طرح کے مفادات کے تصادم کے پیش نظر اعتراض اٹھانا ہوتا تو انتہائی غور خوض کے بعد بڑے محتاط الفاظ میں عدالت تک بات پہنچائی جاتی تھی وگرنہ ججز بذات خود ہی اپنے آپ کو بنچز سے علیحدہ کر لیا کرتے تھے۔
ماضی میں جرنیلوں کی طرف سے سیاست میں دخل اندازی کا ایک سلسلہ شروع ہوا تھا جس کے اثرات نے نہ صرف پارلیمان کے معاملات کو متاثر کیا بلکہ سیاسی میدان میں ایک بھونچال برپا کر دی۔ اس پر نیب کی عدالت، اسلام آباد ہائیکورٹ اور پارلیمان میں آوازیں اٹھنی شروع ہوئیں جس کی گونج سوشل میڈیا، عوامی گپ شپ سے سیاسی جلسوں تک جا پہنچی اور آخر کار اس پر ادارے کو تشویش لاحق ہوئی اور اپنی ساکھ کو بچانے کا عہد کیا گیا۔
جس پر عمل بھی دیکھنے میں آیا مگر اس سے جو عام عوام میں تاثر خراب ہوا اس کا ازالہ ابھی بھی نہیں ہو پا رہا جس کی مثال حالیہ تحریک انصاف کا عمران خان کی گرفتاری پر، فوجی املاک پر حملوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ اور عمران خان خود چیف آف آرمی سٹاف پر الزامات لگا کر اس تاثر کو مزید بڑھا رہے ہیں۔ جس پر حکومت نے تو نوٹس لیا ہے مگر عدالت کی طرف سے کسی بھی افسوس کا اظہار نہیں کیا گیا اور نہ ہی تحریک انصاف کی قیادت میں سے کسی کی سرزنش کی گئی ہے۔
اس سیاسی مداخلت میں ججز کے ملوث ہونے کے الزامات بھی رہے ہیں اور اب اسی طرز پر ججز کے بنچز پر اعتراضات اور تحفظات کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ پارلیمان میں مذمتی قراردادوں سے ہوتا ہوا قانون کی شکل عدالتی اختیارات کے سامنے اب ایک ملزم کی طرح کھڑا اپنی بے بسی پر پریشان حال کل سپریم کورٹ کے سامنے دھرنے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ اور اگر یہ سلسلہ یہاں ہی ختم نہ ہوا تو پھر فیصلوں کا تو جو ہوا سو ہوگا مگر ادارے کے سامنے اگر پارلیمان کی قیادت میں عوام سوالوں کے جوابات پوچھنے پہنچ گئی تو ان کے منہ محض ہونٹوں پر انگلیوں کے اشاروں سے بند نہیں کروائے جا سکیں گے۔ وہاں وہ آوازیں بھی بلند ہوں گی جو آڈیو لیکس کی صورت میں ابھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔
میں نے چند دن قبل لکھا تھا کہ پارلیمان عدالت عالیہ سے چند گز کے فاصلے پر ہے اور وہاں سے گونجنے والی آوازیں سپریم کورٹ کے در و دیوار سے ٹکرا سکتی ہیں لہٰذا اس کشمکش کو اختیارات کے استعمال کی بھینٹ چڑھنے سے جس قدر ہو سکے روکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر تو سپریم کورٹ کے اندر سے ان تحفظات اور اعتراضات کو جواز نہ مل رہا ہوتا تو شائد یہ نوبت نہ آتی مگر اب محض اختیارات عدالتی رائے کا راستہ نہیں روک سکتے اور نہ ہی اس کے اثرات سے آنکھیں چرائی جا سکتی ہیں۔
ان سیاسی مقدمات کی بازگشت کے پس منظر میں محض سہولت کاری کے الزامات ہی نہیں بلکہ مبینہ آڈیو لیکس کا ایک سلسلہ ہے جو ابھی بھی تھم نہیں رہا اور جن کا آئے روز کے فیصلوں اور چیف جسٹس کے اختیارات سے ایک ربط کا تاثر مل رہا ہے۔ ماضی میں اسطرح سے نہ تو چیف جسٹس کے اختیارات کے استعمال کی اور نہ ہی پارلیمان کی طرف سے عدالتی فیصلوں کے خلاف مذمتی قراردادوں کی کوئی مثال ملتی ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے جس سلسلے کا آغاز تحریک انصاف کرنے جا رہی ہے یا اب حکومت میں شمار جماعتوں کا گروپ پی ڈی ایم سپریم کورٹ کے سامنے دھرنوں سے شروع کرنے جا رہی ہے اس سے سپریم کورٹ مزید متنازع ہوگی اور فیصلوں پر عمل درآمد کشمکش کی نظر ہوتا چلا جائے گا۔
سپریم کورٹ ایک آئینی ادارہ ہے اور اس کو اس طرح کے کسی بھی اظہار یکجہتی کی ضرورت ہے اور نہ ہی فیصلوں کے خلاف احتجاج میں کسی دانشمندی کا اظہار ہے۔ مگر جو سیاستدان اپنے معاملات پارلیمان میں حل کرنے کی بجائے چوک چوراہوں میں لانے کو ترجیح دیں ان کو اگر عدالت عظمیٰ سوؤ موٹو کے ذریعے سے اپنے ذمے لے اور ان پر اٹھنے والے اعتراضات کی طرف کوئی توجہ نہ دے تو پھر اس پر کوئی کہے بھی تو کیا؟
یوں تو کافی عرصے سے چیف جسٹس کے اختیارات کی وجہ سے اعتراضات اور تحفظات سامنے آ رہے تھے مگر پچھلے ایک سال سے سپریم کورٹ کا ماحول بنا ہوا ہے اس سے چیف جسٹس کے اختیارات سے بنچز کی تشکیل کے ذریعے آئینی اور سیاسی فیصلوں پر اثر انداز ہونے کا تاثر ابھر رہا ہے جیسے سپریم کورٹ کی اجتماعی رائے کو دبایا جا رہا ہو۔ اور یہ تاثر صورتحال کو سیاست، محبت اور جنگ کے ماحول کی طرف بڑھا رہا ہے۔
سیاست، محبت اور جنگ میں تو سب چلتا ہے مگر عدل میں سب نہیں صرف انصاف ہی چل سکتا ہے۔ اگر عدل میں سیاست، محبت اور جنگ گھس آئیں تو پھر اس میں سے انصاف کا تاثر ڈھونڈنا مشکل ہو جاتا ہے۔ سپریم کورٹ بھلے نہ چاہے مگر ماحول نے جو اس طرح کا تاثر قائم کر لیا ہے اس کو بدلنا اب ممکن نظر نہیں آ رہا۔ اس سیاست، محبت اور جنگ کے تاثر والے ماحول میں سپریم کورٹ کا نوے روز میں الیکشن کا آئینی فیصلہ بھی مضحکہ خیز لگنے لگا ہے۔
چودہ مئی کو انتخابات کروانے کا فیصلہ پندرہ مئی کو نظر ثانی میں سماعت کے لئے مقرر ہے اور اس پر عمدرآمد کی اپیل اگلے ہفتے کے لئے مقرر ہے۔ فیصلے کی تاریخ گزرنے کے بعد اس کی نظر ثانی اور عملدرآمد کی اپیل زیر بحث آئے گی۔ اس کو یوں ہی سمجھ لیجئے جس طرح کسی عدالت نے ملزم کی جیل میں وفات کے بعد اس کو بری کر دیا ہو اور ایسی مثالیں ہمارے ہاں موجود بھی ہیں۔ خیر یہ سپریم کورٹ کے صوابدیدی اختیارات کا معاملہ ہے اور کسی کو ان پر بات کرنے کی بھی اجازت نہیں وہ جانے اور اس کا اختیار۔
بہرحال فیصلوں کے مضحکہ خیز ہونے کو تو پھر بھی برداشت کیا جا سکتا ہے مگر ادارے کے مضحکہ خیز ہونے سے ناقابل تلافی نقصان ہونے کا احتمال ہے جس کا حل سپریم کورٹ کے تمام ججز کو اپنے ادارے کے اختیارات سے ہم آہنگ کسی فل کورٹ کے ذریعے سے نکالنا چاہیے اور اگر چیف جسٹس صاحب کے اختیارات کا ان کے پاس کوئی حل نہیں تو پھر قوم کو اس بارے اعتماد میں تو لیا جا سکتا ہے۔
وگرنہ عوام کے دلوں میں ابھرتے سوالوں کی تشنگی کئی مزید خدشات کو جنم دے سکتی ہے۔ چونکہ اب یہ ادارے کی ساکھ کا معاملہ بنتا جا رہا ہے لہٰذا اب ادارے کے ججز کو ایک اجتماعی رائے کے اظہار سے ہی معاملے کو نمٹانے کی طرف کوئی ٹھوش قدم اٹھانا ہوگا۔ کیونکہ پارلیمان نے وکلاء برادری کے دیرینہ مطالبے کے پش نظر معاملے کو بھانپتے ہوئے قانون کے ذریعے سے اس بارے حل کی کوشش کی جو کام نہیں آ سکی۔
ججز کے سوچ و عمل کو ہمیشہ ذاتی پسند ناپسند اور مفادات سے بالاتر سمجھا جاتا ہے اور ان کو متنازع بنانے کی کوشش سے اجتناب کیا جاتا ہے کیونکہ اس طرح کے تاثر سے نہ صرف انصاف کی فراہمی کا نظام مشکوک ہوتا ہے بلکہ اس سے ادارے کی ساکھ بھی متاثر ہوتی لہٰذا اس متنازع ہونے کے تاثر کو جتنی جلد ہو سکے زائل ہونا چاہیے۔