Aeen Ke Naam Par Siasi Chaalein Aur Be Naqab Hoti Tadbeerein
آئین کے نام پر سیاسی چالیں اور بے نقاب ہوتی تدبیریں
نوے دن کی آئینی شرط بھی ایک پر اسرار فرمائش بن گئی ہے۔ آئین میں نوے دنوں میں الیکشن کروانے کی شرط پاکستانی قوم کے مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے پارلیمان کے عوامی نمائندوں نے ہی رکھی تھی اور وہ ہمیشہ سے اس کی خلاف ورزی پر اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ سے شکوہ کرتے رہے لیکن اس دفعہ ان کے اپنے لئے ہی یہ درد سر بن گئی ہے اور اب مختلف قسم کی توجیحات تلاش کر رہے ہیں۔ جب ان کے اپنے اوپر بات آ گئی ہے تو اس میں ایک دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ تمام بڑی سیاسی جماعتیں جو اپنے آپ کو آئین کی خالق ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں اب اتحادی حکومت کا حصہ ہیں۔
جیسے بھی ہوا جو بھی ہوا ایک بات تو اب واضح ہے کہ نوے دنوں میں الیکشن کروانا اب ممکن نہیں رہا اور اس کا مطالبہ کرنے والے اور عملدرآمد کروانے والوں کی بے بسی بھی سب پر عیاں ہے کہ کیسے وہ مذاکرات کی میز پر بیٹھے ہیں اور حکومت ان کو کتنا سنجیدہ لے رہی ہے۔ حکومت اگر اپنے بندوبست میں کامیاب ہو رہی ہے تو ان کو اپنے حصے آتا عوامی غضب بھی نہیں بھولنا چاہیے جس کی وجہ بھی انکی اپنی سیاسی حکمت عملیاں ہی ہیں۔
تحریک انصاف اور عدالت عظمیٰ کو بھی اس بات کا تو یقین ہو چکا کہ نوے دنوں والی گنتی اب بے فائدہ ہو چکی اور آئین کے ساتھ جو ہونا تھا وہ ہو چکا۔ اب کوئی اہل رہے یا نااہل آئین کے ساتھ وفا تو نہ ہو سکی۔ نوے دن کا وعدہ ایک مرد مجاہد، مرد حق نے بھی کیا تھا اور پھر قوم کو گیارہ سال انتظار کرنا پڑا۔ پھر ایک اور سپہ سالار نے نو سال انتظار کروایا۔ الیکشن تو اس دوران بھی ہوتے رہے مگر ان کے حقائق انتہائی تلخ ہیں۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ماضی میں جب نوے دن کی پر اسرار شرط کو ضرب لگائی گئی تو ہماری عدالت عظمیٰ کے اندر سے اس کو تحفظ فراہم ہوتا رہا ہے مگر اس دفعہ سپریم کورٹ ہی کے اندر سے نوے دن کی شرط کو پورا کرنے کا بندوبست ہو رہا ہے شائد وہ اپنے کردار کی روایات کو نبھانا چاہ رہے ہیں۔ اور اس دفعہ سیاستدان بضد ہیں کہ اگر سپہ سالاروں نے نوے دن کو طول دے لیا ہے تو وہ تو اس آئین کے خالق ہیں اور وہ اس میں ترمیم کا بھی حق رکھتے ہیں اور ان کو کسی عدالت عظمیٰ سے توثیق لینے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔
دراصل اس قوم کا مزاج ہی ایسا ہے خواہ مخواہ ہی یہ آئین پر ضرب کا الزام اسٹیبلشمنٹ پر لگتا رہا ہے۔ اس ملک میں آئین کی پاسداری محض موافق آنے کی صورت میں ہی کی جاتی ہے وگرنہ اپنے آپ کو بدلنے کی بجائے آئین کو ہی بدل لینا مناسب سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ آئین ملک و قوم کی فلاح کے لئے ہے نہ کہ ملک و قوم آئین کی فلاح کے لئے۔ بہرحال مذاکرات پر آنا تحریک انصاف کی سیاسی حکمت عملی کی ناکامی ہے اور ان کو اپنے کئے پر پچھتاوا بھی ہوگا کہ کس طرح انہوں نے اپنے آپ کو اسمبلیوں سے باہر کرکے رسوائی کا راستہ چنا اور حکومتی اتحاد نے انکو ڈی ٹریپ کرکے اختیارات اور طاقت ان کے ہاتھ سے چھین لئے اور اب وہ اپنی بحالی کو ہی غنیمت سمجھ رہے ہیں۔
یوں سمجھ لیجئے عمران خان نے اب حکومت کی ضد کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے ہیں اور وہ چاہ رہے ہیں کہ ان کو دو صوبائی اسمبلیاں اور قومی اسمبلی میں سیٹیں واپس دے کر حصہ دار بنا لیا جائے وہ بھی ایسے میثاق جمہوریت پر دستخط کرنے کے لئے تیار ہیں جس سے ان کو فائدہ ملے مگر عمران خان کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ان کا رویہ ہے جس کی بنیاد پر وہ اعتماد کھو بیٹھے ہیں لہذا تحریک انصاف تو قابل قبول ہو سکتی ہے مگر عمران خان کے لئے شائد کوئی جگہ نہیں اور حکومت کا کسی بھی قیمت پر اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال ہونے تک انتخابات کا کوئی ارادہ نہیں۔
ویسے بھی اس ملک میں فوجی مارشل لاء اور عدالتی تسلط کے بعد سول بندوبست کی ہی کسر رہ گئی تھی جو امید ہے موجودہ سیاسی جماعتوں کا اتحاد پوری کر دے گا۔ تاکہ پلڑا برابر ہو جائے۔
وزیراعظم نے بھی پارلیمان سے اعتماد کا ووٹ لے کر یہ پیغام دے دیا ہے کہ پارلیمان باہمی اختلافات کے باوجود اپنی بالادستی کے معاملے میں متحد ہے اور کسی بھی صورت اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں۔ دوسری طرف چیف جسٹس صاحب کے لئے اپنے ادارے کا اعتماد حاصل کرنے میں انتہائی مشکلات درپیش ہیں اور آڈیو لیکس نے تو رہتی سہتی کسر بھی پوری کر دی ہے۔ تو اس وقت سپریم کورٹ کا ہم خیال گروپ انتہائی دباؤ میں ہے اور وہ انتہائی محتاط بھی نظر آ رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کے بنچ کی یوں پراسرار خاموشی اور مذاکرات کی تجویز بھی انکی بےبسی کی ایک دلیل ہے۔ کوئی خواہ کچھ بھی کہے یہ حقیقت ہے کہ آڈیو لیکس نے حکومتی موقف کو تقویت بخشی ہے اور ججز کے لئے اب ماضی کی طرح کے فیصلے دینا انتہائی مشکل ہوگیا ہے اور حکومت اب ان پر عملدرآمد کے ہر طرح کے خوف سے بھی باہر نکل آئی ہے جس سے سپریم کورٹ کو مزید کوئی فیصلہ دے کر رسوائی کا سامنا بھی پڑ سکتا ہے۔ لہذا بہتری یہی ہے کہ اب اپنے ادارے کی ساکھ کو بچانے کے لئے متنازع ہونے سے بچا جائے۔
اب انکو عمران خان کی طلسماتی کشش بارے مجبوریوں سے باہر نکل آنا چاہیے اور انکے دوبارہ اقتدار میں لانے کے خوابوں پر نظر ثانی کر لینی چاہیے کیونکہ اب یہ حقائق سے مطابقت رکھتے نظر نہیں آتے لہذا اب اپنے آپ کو حکمت عملی سے بچا لینا ہی مناسب ہے۔ وگرنہ ان کو عمران خان کا اپنے محسنوں کے ساتھ رویہ تو یاد ہی ہوگا۔ اب کسی قسم کی توسیع کا نہیں تصیح کا وقت بھی بمشکل بچا ہے۔
حکومت کی حکمت عملی بہت ہی واضح ہے کہ اگر تو سپریم کورٹ کے ہم خیال ججز اپنے رویے سے یہ ثابت کر دیتے ہیں کہ وہ سیاسی معاملات میں دخل اندازی نہیں کریں گے تو حکومت ہر صورت تصادم سے بچنے کی کوشش کرے گی جس کا اندازہ منگل کے دن پروسیجرل بل کیس کی کاروائی سے ہو جائے گا اور اگر چیف صاحب کا کنڈکٹ اپنے اختیارات کے معاملے میں وہی رہتا ہے تو پھر ستمبر تک حکومت کو بھی ان کے مدمقابل بندوبست باامر مجبوری کرنے ہی پڑیں گے۔
چیف صاحب کے پاس اصل طاقت ان کے انتظامی اختیارات ہی ہیں جن کی بنیاد پر وہ بندوبست کرکے اپنی پسند ناپسند کی بنیاد پر فیصلوں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں اور اگر تو وہ ابھی بھی حمائت کی سوچ رکھتے ہیں تو پھر ان کو تصادم کی راہ اپنانی پڑے گی کیونکہ وہ اختیارات کی عدم موجودگی میں ایسا کرنے کی حالت میں نہیں ہونگے اور ان کو سیاسی مدد بھی درکار ہوگی جس کے لئے ہو سکتا ہے وہ تحریک انصاف کو ریلیف دینے کے لئے ان کی اسمبلیوں میں واپسی کی تدبیر میں کوئی مدد کریں۔