Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Bilal Hassan Bhatti
  4. Chinal

Chinal

چھنال

بندوق چلنے کی آواز سے صرف خوف کا احساس انسان کے اندر جنم نہیں لیتا بلکہ خوف کا احساس تو لمحاتی ہے۔ اس بندوق کی آواز سے جو دوسری چیز پیدا ہوتی ہے وہ ہے تجسس۔ آواز کس طرف سے آئی ہے؟ گولی کہاں چلی ہوگی؟ گولی چلانے والا کون ہوگا؟ اس نے کیوں گولی چلائی گی؟ کن دو گروہوں کے درمیان لڑائی ہوئی ہوگی جس کی وجہ سے یہ گولی چلی۔ تجسس کا دورانیہ چند منٹوں تک پھیلا ہوتا ہے۔ ان وقتوں میں جب موبائل فون عام نہیں تھے اور ایسے واقعات فوراً ٹک ٹاک اور فیس بک پر چڑھ کر گلوبل ویلج کا حصہ نہیں بن پاتے تھے۔۔ تب بھی گولی چلنے کی آواز کے پیچھے چھپی وجوہات خبر بن کر بہت تیزی سے پھیلتی تھیں۔ شہری محلوں یا دیہاتوں میں ایسی خبریں دینے والے مخصوص لوگ ہر گلی میں موجود ہوتے تھے۔

تجسس کا تحیر جیسے ہی ختم ہوتا ہے تو پھر اس ہوئے حادثے کو بنیاد بنا کر تبصروں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ کئی دنوں تک ٹاک آف دا ٹاون بنا رہتا ہے۔ ہر گلی محلے کی دکانوں یا تھڑوں اور نکڑوں پر اس حادثے کے ماضی حال کی تفصیل بیان کرتے ہوئے مستقبل کی منظر کشی کی جاتی ہے۔ جب یہ حادثات روٹین کا حصہ بن جائیں تو ان کے طے شدہ نتائج برآمد ہونے لگتے ہیں۔۔ لہذا ایسی جگہوں پر رہنے والے مقامی لوگ گولی چلنے کی آواز سے پیدا ہونے والے لمحاتی خوف سے نکل کر تجسس کے چند منٹوں میں جب تک ان کے پاس خبر نہیں پہنچتی پریشان رہتے ہیں اور جیسے ہی ان کے پاس خبر پہنچتی ہے تو وہ طے شدہ نتائج نکلنے کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔

کراچی کے باسیوں کو بھی فضا میں گونجنے والی گولی کی آواز سے پیدا شدہ خوف اور خبر پہنچنے تک ہونے والے تجسس کے بعد طے شدہ نتائج کے نکلنے کا یقین ہوتا تھا۔ اسی وجہ سے وہ لوگ جو گھروں سے نکل کر دفاتر میں جاتے تھے وہ ایسی خبر سننے کے بعد خوف کے سائے تلے جیتے تھے۔ چھنال میں اکثر افسانوں کے کردار قتل و غارت اور فساد کے خوفزدہ نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر عمل کرتے ہیں اور وہ حیران کن حد تک زندہ گھر پہنچ جاتے ہیں۔ ان کرداروں کا زندہ گھر پہنچنا قاری کے لیے نیا تجربہ ہے۔ جب یہ تجربہ دو چار بار دوہرایا جاتا ہے تو قاری محسوس کرتا ہے ہو نہ ہو یہ زندہ بچ جانے والے کردار کوئی مختلف لوگ نہیں بلکہ ایک ہی فرد ہے۔

یہ فرد ہمیں کہیں بھی واقعاتی سطح پر صحافی محسوس نہیں ہوتا جو کسی واقعے کی تفصیل پر روشنی ڈالتا ہے بلکہ شارٹ فلم کا کیمرہ مین محسوس ہوتا ہے جو کسی بھی واقعے یا حادثے پر چند سیکنڈ کا کلپ بناتا ہے۔ بالکل مارٹن سکوسری کے ٹیکسی ڈرائیور کی طرح یہ فرد بھی ہمیں کراچی کا ٹیکسی ڈرائیور محسوس ہوتا ہے۔ جو کراچی میں ہوے حادثات کو ہم تک پہنچاتا ہے۔ مزید پڑھنے اور مصنف کی تحریروں سے شغف رکھنے والا قاری بڑی آسانی سے مصنف کو ڈھونڈ لیتا ہے جو زیادہ تر افسانوں کا راوی ہے۔ یہ راوی نہ صرف واقعات پر بلکہ انسانوں کے تعلقات اور نفسیاتی الجھنوں کو بھی چند جملوں میں نمٹا کر جان چھڑواتا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ واقعہ بتا کر قاری کے تخیل اور تجسس پر چھوڑ دیتا ہے اور نئے واقعے کی تلاش میں نکل جاتا ہے۔ چونکہ یہ افسانے جس وقت لکھے جا رہے تھے اس وقت کراچی کی فضا میں قتل و غارت کا راج تھا لہذا زیادہ تر افسانوں میں اس قتل و غارت سے پیدا ہونے والی اور خوفزدہ کر دینے والی فضا کا حوالہ یا ذکر ضرور محسوس ہوتا ہے۔

چونکہ مصنف ایک صحافی ہیں چند افسانے ان خبروں پر مشتمل ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر ٹی وی اور اخبارات میں چھپتے ہیں۔ مصنف نے ان خبروں میں اپنا تخلیقی رنگ بھرا ہے۔ ان میں سب سے شاندار افسانہ مجھے اسٹیج ڈانسر محسوس ہوا۔ سوائے چند افسانوں کے اس مجموعے میں شامل اکثر افسانے اپنے زمان و مکان اور وقت کی قید میں جھکڑے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ اس مجموعے کے پہلے پانچ افسانے بہت متاثر کن اور قاری کو متوجہ کرنے والے ہیں۔ غالباََ یہ افسانے قاری کو مکمل طور پر گرفت میں لینے کے لیے ہی اس ترتیب سے ابتدا میں رکھے گئے ہیں۔ تا کہ قاری پر مصنف آہستہ آہستہ اپنی پوری قوت کے ساتھ کھلنا شروع ہو۔ یقیناََ جس نے بھی افسانوں کی یہ ترتیب رکھی ہے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوا ہے۔

بیک فلیپ پر لکھی رائے میرے لیے غیر اہم ہوتی ہے چاہے جتنے بڑے مشاہیر نے لکھی ہو۔ لیکن اس کے باوجود رفیع اللہ میاں کا یہ جملہ مجھے سب سے مناسب لگا۔ میرے خیال سے اس جملے کے علاوہ بیک فلیپ پر مشاہیر کی رائے نہ بھی ہوتی تو کام چل سکتا تھا۔ وہ جملہ یہ تھا "یہ افسانے قابل مطالعہ قابل قدر ہیں"۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam