Gumnam Gaon Ka Akhri Mazar
گمنام گاؤں کا آخری مزار
ریت کا پیاس کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ پانی کے ہجر میں تڑپتی ہوئی ریت مگر وصل بس چند گھڑیوں تک ہی محدود رہتا ہے۔ محبوب آتا ہے، چھم چھم برستا ہے، پیاس بجھاتا ہے اور پھر ایک نامعلوم وقت تک کے لیے چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔
ریت کے مقدر میں سیراب ہونا کہاں۔ ریت کی ہتھیلیوں پہ تو ہجر کی مضبوط لکیریں بنی ہوتی ہیں جنہیں وصل کی بارشوں کے چند قطرے کبھی مٹا نہیں پاتے۔ لیکن ریت کی امید اُسے زندہ رکھے ہوتی ہے۔ چند گھڑیوں کے لیے ہی سہی، پیاس بجھتی تو ہے۔ انتظار ختم تو ہوتا ہے اور پھر ایک نیا انتظار جنم لے لیتا ہے اور یوں اِس اونچے ٹیلوں بھرے صحرا میں دن اور راتیں اپنے اپنے مدار میں گھوم کر اپنا وقت گزارتی ہیں۔
ایک قاری بھی ریت کی مانند ہوتا ہے جسے ایک اچھی اور عمدہ کتاب کی شدید پیاس ستائے رکھتی ہے۔ چونکہ دنیا میں ڈھیروں کتابیں موجود ہیں، آپ کسی لائبریری میں ہی چلے جائیں تو تین چار ہزار کتابیں وہاں مل جاتی ہے لیکن ایک قاری کی پیاس ہر کتاب نہیں بجھا سکتی۔ وہ بیسیوں کتابوں میں سے کوئی ایک کتاب ہوتی ہے جو قاری کی پیاس بجھانے کا دَم رکھتی ہے۔ جو ہفتوں مہینوں تک اُسے اپنے سحر سے آزاد نہیں ہونے دیتی۔
میرے ساتھ یہ والا معاملہ رؤف کلاسرہ صاحب کی کتاب "گمنام گاؤں کا آخری مزار" پڑھ کر ہوا۔ میں میٹرک تک گاؤں میں رہا اور پھر لاہور آ گیا لیکن گاؤں سے محبت، شہر کی رونق اور مصروفیت بھی کم نہ کر سکی اور اِس کتاب سے محبت کی وجہ بھی گاؤں ہی ہے کیونکہ کلاسرہ صاحب کی تحریریں بھی گاؤں کی محبت میں گوندھی ہوئی ہیں یہاں تک کہ اُنہوں نے یہ کتاب بھی اپنے گاؤں جیسل کلاسرہ کے کمہار چاچا میرو کے نام کی ہے اور وہ اِس کتاب کے آخری ہیرو بھی ہیں۔
تحریریں عام مگر بڑی خوش اسلوبی سے لکھی گئی ہیں، قاری کی دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے کلاسرہ صاحب نے کتاب میں ایک ایسا تسلسل قائم رکھا ہے کہ جو قاری کو کتاب چھوڑنے ہی نہیں دیتا اور خاص طور پر وہ جنہیں گاؤں کی ثقافت، رسم و رواج اور مٹی سے بہت پیار ہو۔ اِس کتاب کے توسط سے میں نے اپنا بچپن ایک بار پھر جی لیا ہے۔ گاؤں کی گلیاں، وہاں گزاری گئیں عیدیں، شبراتیں اور شرارتیں سب کی سب یادیں تازہ ہوگئیں۔
کلاسرہ صاحب کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ وہ اپنی تحریروں میں مشکل اردو کی بجائے آسان لفظوں اور عام کہانیوں کا چناؤ کرتے ہیں۔ میں نے پوری کتاب میں کوئی ایسی تحریر نہیں پڑھی جو کہ انگریزوں کی ہو یا کسی ایسی زبان یا قوم کی کہ جسے پڑھنے میں بڑی دقت پیش آئی ہو۔
تحریریں ہماری مٹی کی ہیں، ہمارے گاؤں کی ہیں، ہماری عام زندگی کی ہیں جنہیں پڑھ کر گاؤں میں گزرا بچپن اور لڑکپن دونوں یاد آنے لگتے ہیں۔ یقین کریں کہ تحریروں نے اِس قدر جذباتی کر دیا کہ ایک لمحے کے لیے مجھے لگا کہ یار گاؤں چھوڑ کر لاہور نہیں آنا چاہیے تھا۔ کتاب کے چند صفحے پڑھنے کے بعد دل یہی کیا کہ ابھی فوراً اپنے گاؤں کے لیے نکل جاؤں اور باقی کے صفحے گاؤں جا کر کسی پیپل یا ٹالی کی گھنی چھاؤں میں بیٹھ کر پڑھوں جہاں قریب ٹیوب ویل بھی چل رہا ہو اور ٹھنڈی ہوا دل کو لبھا رہی ہو۔
کلاسرہ صاحب کی یہ پہلی کتاب ہے جو میں نے پڑھی ہے اور مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اِس کتاب نے میری پیاس کو سیراب کر دیا ہے۔ اب کچھ ہفتے اچھے گزر جائیں گے اور اگلی ایسی کتاب جانے کب ملے یا نہ ملے جو پیاس کو بجھا سکے تو اُس کا حل بھی میں نے یہ ڈھونڈا ہے کہ اگلی کتاب بھی کلاسرہ صاحب کی ہی پڑھوں گا تاکہ ذائقہ اور معیار بھی وہی رہے اور دوسرا پیاس بھی زیادہ تنگ نہ کر سکے۔