Beti Rukhsat Karna Hi Parti Hai
بیٹی رخصت کرنا ہی پڑتی ہے
میں ہفتے کو گاؤں، ایک شادی پہ گیا تھا۔ چاچو نے بھی اگلے مہینے اپنی بیٹی کی شادی کرنی ہے تو وہ بھی شادی کے حوالے سے تیاریوں میں مصروف تھے۔ رات کا وقت تھا اور ہم تینوں، میں، میرا ایک کزن اور چاچو حویلی کے سامنے بنی سڑک پہ چہل قدمی کر رہے تھے۔ یہ حویلی شہر سے صرف ایک کلومیٹر کی دوری پہ تھی اور سر سبز گندم کی فصلوں کی بیچ بڑی شانِ بے نیازی سے کھڑی تھی۔ سفید، گلابی رنگت کے رنگ میں رنگی یہ حویلی بڑی دلکش لگ رہی تھی۔
شادی کی وجہ سے اِسے تازہ تازہ پینٹ کیا گیا تھا۔ اور ڈھیروں بلبوں کی روشنی حویلی کو کسی دلہن کی طرح حَسیں بنا رہی تھی۔ چاچو سگریٹ کا دھواں ہوا میں تحلیل کرتے ہوئے کہنے لگے۔ کہ یار بیٹی کی شادی کرنا کیوں ضروری ہوتا ہے؟ کیوں ایک باپ اپنی بیٹی کو کسی کے حوالے کرتا ہے۔ میں کیسے رہوں گا اپنی بیٹی کے بغیر، یہ سوچ سوچ کر ہی دل ڈوب رہا ہے میرا پھر وہ خاموش ہو گئے اور رات بھی گہرے خاموش اندھیرے میں ڈوبنے لگ گئی۔
اور پھر تھوڑی دیر بعد وہ بولے کہ جدید دور نے ہماری رسم و رواج کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ کتنے حَسیں دور کو یہ ڈیجیٹل دور کھا گیا ہے۔ پہلے بیٹیوں کی شادی پہ سب ہنسی خوشی آتے تھے۔ اب پہلے رشتہ داروں کو منانا پڑتا ہے اور پھر شادی کرنا پڑتی ہے۔ کوئی کیوں یہ نہیں سمجھتا کہ ایک باپ کے لیے ایک بیٹی کو خود سے جُدا کرنا پہلے ہی بہت مشکل ہوتا ہے اوپر سے وہ روٹھے رشتے منانے میں جُتا رہتا ہے۔
پہلے ایک بندہ گھر گھر جا کر شادی کا کارڈ دے آیا کرتا تھا۔ جس سے مان اور عزت بڑھتی تھی۔ لوگ کارڈ لانے والے کو بٹھا کر میٹھا شربت پلایا کرتے تھے، اور ساتھ میں کچھ پیسے بھی دے دیا کرتے اور کہتے کہ ہم ضرور شادی میں آئیں گے بھائی، جا کر بتا دینا، اور اب یہ حال ہے کہ ایک میسج بنا کر فون نمبر پہ بھیج دیا جاتا ہے۔ کوئی کسی سے مل کر یا گھر جا کر انوائٹ نہیں کرتا۔
چاچو کا لہجہ بڑا دُکھی تھا اور اُنہوں نے ہمیں ٹیوب ویل کے پاس پڑی چارپائی پہ بیٹھنے کو کہہ دیا۔ چاچو اور کزن چارپائی پہ بیٹھ گئے، جبکہ میں ٹیوب ویل کے بنے " کھاڈے" کی چھوٹی سی دیوار پہ بیٹھ گیا۔ ہم دونوں خاموش تھے۔ کہہ بھی کیا سکتے تھے، کیونکہ ایک باپ اپنی بیٹی کے حوالے سے جذباتی ہو رہا تھا اور یہاں کوئی حوصلہ کوئی تسلی دینا محض بیوقوفی تھی اور کچھ نہیں، سو ہم نے بھی یہی سوچا کہ چاچو کو اپنا دل ہلکا کر لینے دیتے ہیں۔
کتنے دُکھ اور افسوس کی بات ہے، لیکن افسوس اِس بات سے زیادہ اِس بات کا بھی ہے کہ کوئی بھی اِس سانحے کو سانحہ نہیں سمجھ رہا اور وہ سانحہ یہ ہے، یہ آج کل کے "شادی ہال" کیا یہ سانحہ نہیں ہے کہ ہم اپنی بیٹیوں کو اب باہر سے اور اجنبی جگہوں سے ہی الوداع کر دیتے ہیں۔ جہاں اُس بیٹی نے اپنی پوری زندگی گزاری ہوتی ہے، جہاں پلی، بڑھی اور بڑی ہوئی ہوتی ہے۔ کیا اُسے وہاں سے رُخصت نہیں کرنا چاہیے۔
کیا وہ اِتنی گئی گزری ہوگئی ہے کہ اُسے باہر و باہر سے ہی کسی اور کے گھر بھیج دیا جائے۔ میں کسی شادی ہال میں انتظامات نہیں کروں گا۔ یہ گھر کے سامنے پورے ایک ایکڑ کی جگہ پر ہی سارے ارینج منٹس کروں گا۔ میری بیٹی اپنے گھر سے ہی رُخصت ہوگی۔ اُس کی زندگی کے اہم دن کے سارے فنکشن ساری رسمیں یہیں ادا ہوں گی۔ جہاں اُس نے اپنا سارا جیون گزارا ہے۔ بیٹی کے رخصت کرنے کی بات پر چاچو رونے لگ گئے اور ہم دونوں نے اُنہیں گلے لگا لیا۔
یہ وہ چاچو تھے۔ جو اپنے آپ میں ایک بھرپور مرد اور پرے پنچائتوں میں فیصلے کرنے والے تھے۔ جنہیں سخت حالاتوں میں بھی میں نے کبھی کمزور ہوتے نہیں دیکھا تھا۔ لیکن آج بیٹی کی جدائی اُنہیں کس قدر نڈھال کر رہی تھی میں سمجھ سکتا تھا، کیونکہ میں خود بھی ایک بیٹی کا باپ تھا۔ اور یوں چاچو کے رونے میں میری رونا بھی شامل ہوگیا تھا۔