Yaseen Ansari, Azm o Hoslay Ki Dastan
یاسین انصاری، عزم و حوصلے کی داستان
کچھ لوگ آپ کی زندگی میں آتے ہیں، چلے جاتے ہیں۔ کچھ آپ کے دل و دماغ پر چھا جاتے ہیں اور زندگی کیا، کیوں اور کیسے کا فلسفہ سمجھا جاتے ہیں۔ یاسین انصاری میرے ان دوستوں میں سے ہیں۔ میں اس دبلے پتلے شخص کو اس کے عزم و حوصلے کی بنا پر " جبل الیاسین " کہتا ہوں۔ میرا یقین ہے کہ یہ مضمون پڑھنے کے بعد آپ بھی یہی کہیں گے۔ کئی بار ارادہ کیا کہ ان پر لکھوں مگر ان کی مضبوط و غیر متزلزل شخصیت کو دیکھ کر محسوس ہوا کہ میرا قلم انصاف نہیں کر پائے گا، تحریر میں ان کا حق ادا نہیں ہو پائے گا۔
یاسین انصاری کو بڑا گلہ ہے کہ میں ان کے گھر سے قریب جگہوں پر آتا ہوں مگر ان کی طرف نہیں آتا۔ ان کا گلہ بجا ہے لیکن وعدہ آج بھی برقرار ہے کہ ایک نہ ایک دن ضرور آؤں گا۔ اس پر یاسین انصاری کہتے ہیں:
غلط ہو آپ کا وعدہ کوئی خدا نہ کرے
مگر حضور کو عادت ہے بھول جانے کی
یاسین انصاری سے میری پہلی ملاقات ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں ہوئی۔ ذرا سی دیر میں برسوں کی شناسائی کا مزا آنے لگے۔ اشتہاری دنیا کے مشہور تخلیق کار، ادیب، شاعر و دانشور اور میرے مربی قیصر عالم بھی وہیں ہوا کرتے تھے۔ میں نے یاسین انصاری کے حوالے سے دو باتیں نوٹ ضرور کیں مگر ایسا بھی نہیں کہ کرید میں لگ جاتا۔ ایک تو یہ ان کا وزن کم تھا اور دوسرا یہ کہ جب بھی گیا، انہیں کھڑا پایا۔
یاسین انصاری۔۔ پیدائش، تعلق اور تعلیم
یاسین انصاری یکم جنوری 1964 کو کراچی میں اردو، گجراتی اور ہندی زبان پر عبور رکھنے والے شاعر و مترجم خادم کتیانوی کے ہاں پیدا ہوئے۔ آبائی تعلق ریاست جونا گڑھ ماناودر سے ہے۔ مادری زبان ٹھیٹ کاٹھیاواڑی میمنی ہے۔ ویسے بنیادی تعلق سندھ کے قدیم ساحلی شہر بھنبھور سے ہے اور اسی نسبت سے بھنبھرو کہلاتے ہیں اور کپڑے بننے کی نسبت سے انصاری لاحقہ بھی ساتھ لگاتے ہیں۔
یاسین انصاری نے میمن اسکول سے میٹرک، ڈے جے سائنس کالج سے انٹر اور کراچی یونیورسٹی سے اپلائیڈ میتھمیٹکس میں آنرز کیا۔ یاسین انصاری نے 1984 میں احتشام پروسیس سے ملازمت کا آغاز کر دیا۔ بقول یاسین انصاری وہ بچپن سے جسمانی طور پر کمزور تھے۔ اسکول لائف میں وزن کبھی بھی 30 کلو سے زیادہ نہ بڑھا۔ اس کے بعد بھی وزن کبھی 40 کلو سے آگے نہ گیا۔ تعلیمی میدان کے ساتھ ادبی ذوق کے حامل تھے اس لیے والد کے ساتھ ساتھ رہتے اور ان کی لائبریری سے خوب استفادہ کرتے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اہل خانہ اور والد کے دوست انہیں والد صاحب کا دم چھلا کہا کرتے۔ یاسین انصاری کے مطابق والد کی خصوصی شفقت و محبت کی ایک وجہ شاید ان کی جسمانی کمزوری بھی تھی۔ 1989 میں تعلیم مکمل کرکے بھائی کے ساتھ کاروبار سے منسلک ہو گئے۔ اسی دوران والد کا ہارٹ اٹیک کے باعث انتقال ہوا اور چھوٹی بہنوں اور والدہ کی ذمہ داری ان پر آ گئی -
مہلک بیماری Muscular Dystrophy کی تشخیص
والدہ ان کی جسمانی کمزوری کے بارے میں ہمیشہ فکرمند رہا کرتی تھیں۔ یاسین انصاری اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے باعث ایڈورٹائزنگ میں آ چکے تھے اور خوب نام کما رہے تھے مگر زندگی کچھ منکشف کرنے پر تلی تھی۔ 1999 میں والدہ کے دباؤ پر نیورولوجسٹ نے Muscle Biopsy کے بعد پٹھوں کی ایک مورثی بیماری Muscular Dystrophy تشخیص کی۔ یہ ایک کمیاب اعصابی بیماری ہے جس کا دنیا بھر میں چند لاکھ افراد ہی شکار ہوتے ہیں۔ یاسین انصاری نے اس بیماری سے متعلق بتایا:
"ہمارا بدن ایک منٹ میں دو ہزار پروٹینز یعنی لحمیات بناتا ہے جس میں ایک پروٹین جس کا نام کریٹین ھے وہ ہمارے پٹھوں کو متحرک رکھتا ہے۔ جس کی وجہ سے ہم حرکت کرسکتے ہیں، یہ پروٹین بننا چھوڑ دے یا اس کی تشکیل غیر معیاری ھو جائے تو انسانی پٹھے چربی میں تبدیل ھونا شروع ھو جاتے ہیں جس کی وجہ سے بازو، کمر، ٹانگیں بتدریج کام کرنا چھوڑ دیتی ہیں اور انسان بالآخر معذور ھو کر دار فانی سے کوچ کر جاتا ھے۔ اگر یہ مرض پیدائش کے وقت سے ہی شروع ھو جائے تو انسان جوانی سے پہلے ہی مر جاتا ھے۔ جوانی یا ادھیڑ عمر میں اچانک شکار ھو جانے پر 60 برس سے قبل ہی معذور ہو جاتا ھے اور اگر پھیپھڑے و دل متاثر ھو جائیں تو جلد ہی پیوستہ خاک ہو جاتا ہے"۔
آغاز عزم و حوصلے کی داستان کا!
اب شروع ہوتی ہے یاسین انصاری کے عزم و حوصلے کی داستان جس کا کئی سال سے میں خود گواہ ہوں۔ میں نے یاسین انصاری سے چند روز پہلے پوچھا تھا کہ اب تو 2023 ہے۔ اس بیماری کا جب پتہ چلا تو کیا کیفیت رہی، کہنے لگا: جس دن معلوم ہوا، تب سے اب تک میں نے اسے چیلنج سمجھ کر قبول کیا اور کسی بھی وقت مایوسی، اداسی اور زندگی سے بے رغبتی کو اپنے پاس بھٹکنے نہیں دیا۔
اس بیماری کے تمام تر ممکنات و خطرات کے باوجود یاسین انصاری نے نیشنل ایڈورٹائزرز، ایس اینڈ ایس ایڈورٹائزنگ، شی میگزین اور کراس چیک /دی رئیل مارکیٹنگ میں کام کیا۔ روزانہ صبح آفس جاتے اور صبح سے شام بلکہ کبھی کبھی تو دیر تک کھڑے ہو کر کام کرتے جس کے لیے انہیں الگ سے اونچی ٹیبل بنوا کر دی گئی۔ گھنٹوں کھڑے ہو کر کام کرنے کہ بات ہو تو بقول شجیع حیدر کاظمی، گینس بک آف ورلڈ ریکارڈ میں ان کا نام شامل ہو سکتا تھا۔ یاسین انصاری نے بتایا کہ ان دنوں بھی بیماری کی شدت اتنی تھی کہ صبح بستر سے اٹھنے میں آدھا گھنٹہ لگ جاتا۔ اس لیے جب تک کام ہے صرف کھڑے ہونے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ ایسا کرنا عام آدمی کے لیے ممکن نہ تھا مگر میں پٹھوں کی کمزوری کے باوجود واقعتاً ڈٹ کر کھڑا رہا اور آج بھی کھڑا ہوں۔ بتاتے ہیں اس مرض میں فزیوتھراپی ہی شدت کو کم کر سکتی ہے۔
یاسین انصاری 2007 سے اب تک سنرجی ایڈورٹائزنگ سے منسلک ہیں اور 2012 میں ایک حادثے میں کولہے کی ہڈی کی جراحت کے بعد، چلنے پھرنے سے معذور ہو جانے کی وجہ سے گھر سے ہی کام کرتے ہیں۔ بیماری ضرور اپنا رنگ دکھا رہی ہے مگر یاسین انصاری کے چہرے پر زندگی کے سارے رنگ موجود ہیں۔ آپ بات کریں تو ان کی برجستہ گفتگو، قہقہوں سے اندازہ ہی نہ ہوگا کہ وہ کسی جان لیوا بیماری میں مبتلا ہیں۔ مضمون کی بابت بات ہوئی تو کہنے لگے:
" یہ اللہ پاک کی آزمائش ہے اور میں اللہ پاک سے اس بیماری سے مقابلے کے لیے ہمت اور حوصلہ طلب کرتا رہتا ہوں وگرنہ امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مطابق (مفہوم)، اگر آپ شکایات میں لگے رہو گے تو لوگ آپ سے بیزار ہو کر دور ھو جائیں گے"۔
مہلک بیماری کا شکار مگر زندگی کے شہ سوار
یاسین انصاری کو سب پتہ ہے اور اس پر بھی پائے استقامت میں کوئی کمی نہیں۔ کوئی شکوہ شکایت نہیں۔ حوصلے اور ہمت کا یہ پہاڑ کھڑا ہے اور بتا رہا ہے، عمل سے سکھا رہا ہے کہ پروردگار جس حال میں رکھے، اس کا شکر ادا کرو اور اپنی سی ہر کوشش کرتے رہو۔ بے شک وہ تنکے میں جان ڈالتا ہے۔ کچھ خبر نہیں کہ اس لاعلاج بیماری (مسل ڈسٹرافی/ضمورالعضلات) کا کوئی علاج دریافت ہو جائے اور یاسین انصاری اور ان جیسے لوگ خدا کی اس زمین ہر دوبارہ عجز و انکسار کے ساتھ بغیر کسی سہارے کے ایک بار پھر چلنا پھرنا شروع کردیں۔ محدود مایوسی کے ساتھ لامحدود امید رکھنا بہت اچھی بات ہے!
یاسین انصاری اردو، انگریزی اور سندھی میں نثر و نظم دونوں لکھتے ہیں۔ تخلص ابن خادم کتیانوی ہے۔ قطعہ حاضر ہے۔
سب اسباب و علل اس کے ہیں
یر مشکل کے حل اس کے ہیں
گزرے جتنے پل اس کے تھے
جو گزریں گے کل اس کے ییں