Allama Iqbal Ba Haisiyat Mufakkir e Pakistan
علامہ اقبال بحیثیت مفکرِ پاکستان
یقین افراد کا سرمایۂ تعمیرِ ملت ہے
یہی قوت ہے جو صورت گرِ تقدیرِ ملت ہے
علامہ اقبال در حقیقت ملتِ اسلامیہ کے فکری رہنما تھے۔ یہ اس دور کی بات ہے جس میں ہندو اور انگریز دونوں اس کوشش میں مصروف تھے کہ مسلمان اپنے تہذیبی شعور اور امتیازی وجود سے محروم ہو جائیں۔ اُن کی ملی انا کا گلا گھونٹ دیا جائے۔ ان دونوں قوموں نے جہاں مسلمانوں کو اپنے اپنے نظریات سے مسخر کرنے کی کوشش کی، وہاں عملی میدان میں زندگی کے ہر شعبے میں پیچھے دھکیل دیا۔ یہی وہ حالات تھے جن میں "تصورِ پاکستان" ابھرا۔
علامہ اقبال نے 1930ء میں مسلم لیگ کے الٰہ آباد کے اجلاس میں ایک ایسے خطے کی تشکیل کا تصور پیش کیا جہاں اسلام مرکزیت اختیار کر سکے اور جس میں وہ تمام علاقے شامل ہوں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ خطبہ الٰہ آباد میں آپ نے فرمایا "مجھے یہ اعلان کرنے میں مطلق تامل نہیں کہ اگر فرقہ وارانہ امور کے ایک مستقل اور پائیدار تصفیہ کے تحت اس ملک میں مسلمانوں کو آزاد نشوونما کا حق حاصل ہے تو وہ اپنے وطن کی آزادی کے لئے بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ میری یہ خواہش ہے کہ صوبہ پنجاب، سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ایک ہی ریاست میں ملا دیا جائے۔ مجھے یہ نظر آتا ہے اور نہیں تو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو بالآخر ایک منظم ریاست قائم کرنا پڑے گی۔ اگر ہم چاہتے ہیں اس ملک میں اسلام بحیثیت ایک تمدنی قوت زندہ رہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقہ میں اپنی مرکزیت قائم کرے"۔ (خطبات اقبال)
گویا شمال مغربی سرحدی علاقے میں اسلامی مملکت کے قیام کا خواب حکیم الامت نے قوم کے سامنے پیش کیا۔ یہ اُس کا نقشہ اور نظام تھا جو اُن کے ذہن میں محفوظ تھا اور یہی اس مملکت کا حقیقی تصور تھا جو سولہ سال بعد دنیا کے نقشے پر ابھرنے والی تھی۔ بظاہر یہ تمام نقشہ انتہائی مایوس کن تھا لیکن اقبال چونکہ اُس وقت تک اسلامی نظریہ حیات پر پورے شعور سے ایمان لا چکے تھے، انھوں نے مسلمانان برصغیر کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اخوت، مشاورت، یقیں محکم، عمل پیہم اور انسانیت سے محبت کا درس دیا۔ اپنی شاعری کو انھوں نے اسلامی اقدار کے فروغ کا ذریعہ بنایا۔
یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کو تحریک آزادی کا مطلب سمجھاتے ہوئے یہ احساس دلایا کہ اس وقت اسلام ہی وہ واحد قوت ہے جو انہیں بچا سکتی ہے۔ فرماتے ہیں "آج اگر آپ اپنی نگاہیں اسلام پر مرتکز کر دیں اور اس میں جو دائمی قوت آفریں تخیل مضمر ہے، اُس سے تحریک حاصل کریں تو آپ اپنی پراگندہ قوتوں کی شیرازہ بندی کر لیں گے اور اپنے کھوئے ہوئے عروج کو دوبارہ حاصل کر لیں گے"۔
اقبال کا اپنا مرتب کردہ ایک سیاسی نظام تھا جس کی رو سے زمین کسی شخص، خاندان یا کسی قوم و مذہب کی ملکیت نہیں بلکہ دنیا کی ہر چیز کا مالک خدا ہے۔ وہ صرف اسی نظامِ سلطنت کو پسند کرتے تھے جس میں روح و مادہ کی وحدت قائم رہے اور ایسی سلطنت صرف اسلام نے قائم کی ہے۔ نظریۂ اقبال کے مطابق اسلامی نظام کے قیام کے لئے سیاسی اقتدار حاصل کرنا مسلمانوں کے لئے ضروری تھا۔ لیکن اسلامی مملکت کا یہ خیال 1937ء تک عملی سیاست کے دائرے میں کہیں نظر نہ آیا۔ البتہ اقبال نے اپنی دور اندیشی کی بناء پر اس کا خاکہ اپنے ذہن میں تیار کر لیا تھا۔ انہوں نے ایک طرف مسلمانوں کو اسلام کی لازوال طاقت کا احساس دلایا تو دوسری جانب ہندو اور نیشنلسٹ قوموں کو جو مسلمان قوم کو متحدہ وطنی قومیت میں مدغم کرنے کے خواب دیکھ رہی تھیں اس دائمی حقیقت سے آگاہ کیا۔
"اس قوم کا منتہائے مقصود اسلام اور صرف اسلام ہے۔ اس کے لئے وہ کسی نظریے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوگی جو اس کی تہذیبی ہستی کا خاتمہ کرنے کے لئے پیش کیا جائے گا"۔
قوموں کی حیات اُن کے تخیل پر ہے موقوف
یہ ذوق سکھاتا ہے ادب مرغِ چمن کو
مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں "ملتِ بیضا پر ایک نظر" کے عنوان سے لیکچر دیتے ہوئے علامہ اقبال نے اپنے نکتۂ نظر کی کچھ اس طرح وضاحت کی "اسلام کی نوعیت ہمارے لیے یہی نہیں کہ وہ ایک مذہب ہے بلکہ اس سے بہت بڑھ کر ہے۔ اسلام میں قومیت کا مفہوم خصوصیت کے ساتھ چھپا ہوا ہے۔ قومی زندگی کا تصور اس وقت تک ہمارے ذہن میں نہیں آسکتا جب تک ہم اس اصول سے پوری طرح باخبر نہ ہوں۔ بالفاظ دیگر اسلامی تصور ہمارا وہ ابدی گھر اور وطن ہے جس میں ہم زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ جو نسبت انگلستان کو انگریزوں سے اور جرمنی کو جرمنوں سے ہے وہی اسلام کو ہم مسمانوں سے ہے۔ جہاں اسلامی اصول یا ہماری مقدس اصطلاح میں "خدا کی رسی" ہمارے ہاتھ سے چھوٹی اور ہماری جماعت کا شیرازہ بکھرا، وہیں ہماری قومیت ختم ہوگئی۔
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے، تو مصطفوی ہے
مذہبی اقدار سے لے کر تہذیبی روایات اور سیاسی شعور تک برصغیر کے مسلمانوں میں صدیوں کے بعد جو نیا اندازِ فکر پیدا ہوا، وہ اسی مفکر کا بخشا ہوا تھا۔ سب سے بڑی چیز جو انھوں نے مسلمانوں کو دی وہ زندگی کے تمام مسائل کو ایک خاص نکتہ نظر سے دیکھنے کا شعور تھا۔ یہی وہ رجحان تھا جو خوابِ غفلت میں مدہوش قوم میں نظریہ کی صورت پروان چڑھا اور اُسی کی بدولت یہ وطنَ عزیز حاصل ہوا۔ ہمیں ان کے درسَ محبت و حریت کو یاد رکھنا چاہئے۔
مصافِ زندگی میں سیرتِ فولاد پیدا کر
شبستانِ محبت میں حریر و پرنیاں ہو جا
گزر جا بن کے سیلِ تند رو کوہ و بیاباں سے
گلستان راہ میں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہو جا