Shehar Mein Paida Hone Walay Dehati
شہر میں پیدا ہونے والے دیہاتی
شہر میں رہتے ہوئے دیہاتی رہنا بہت مشکل اور اذیت ناک ہے۔ بڑے شہروں میں لوگ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں، اکثریت ایسے ہی دیہاتیوں کی ہوتی ہے مگر اسی شہر میں شہر کے طور طریقوں میں رچے بسے لوگ بھی بستے ہیں، کام کے بندے کی تلاش میں رہتے ہیں اور اپنا کام نکالنے کا فن خوب جانتے ہیں۔ شہری دیہاتیوں کو دھرے عذاب کا سامنا رہتا ہے۔ ایک تو ان کو احمق اور گاودی ہونے کے طعنے اور کسی دوسرے کے کامیاب ہونے پر موازنہ کے نام پر کیا کچھ نہیں کہہ دیا جاتا۔ شہر داری اور اس کی فنکاری انہیں چھو کر نہیں گزری ہوتی۔ جانتے یہ بھی سب کچھ ہیں مگر کیا ہے کہ من کے بھیتر چھپا دیہاتی شہر کی کھوٹے مزاج سے میل نہیں کھاتا۔
شہری دیہاتی کے روزمرہ کے معمولات عام شہریوں جیسے ہی ہوتے ہیں۔ ان جیسا دکھتا ہے۔ رات دیر تک جاگنا، صبح بھاگے دوڑے دفتر پہنچنا، شام کو تھکے ہارے گھر آنا۔ دن بھر ملازمت بچانے کی فکر میں کام کرنا، باس کی نظروں پر نظر رکھنا اور خود ساختہ اندیشوں کا شکار رہنا، یہ سب روز ہوتا ہے مگر دوسروں کو خوشامد اور چاپلوسی سے آگے بڑھتے دیکھنا اور خود بھی ایسا کرنے کی سوچ کر اپنے آپ سے کراہیت محسوس کرنا ان کے روز کے دکھ ہیں۔
شہری دیہاتی کہیں بھی " فٹ " نہیں بیٹھتا۔ کسی تقریب میں جائے تو سمٹے سمٹے رہنا۔ جس کرسی پر بیٹھے، اس پر ایسے جم کر بیٹھنا جیسے سسرال میں آیا ہے۔ جہاں بیٹھا ہے، کھانا کھائے گا، وہیں سے آٹھ کر گھر جائے گا۔ کسی بڑے آدمی کی آمد پر سب کو کرسی چھوڑ کر ملتے دیکھ کر عجیب کیفیت میں آ جانا۔ وہ بڑا آدمی اگر جانتا بھی ہے تو اس سے نظر نہ ملانے کی کوشش کرنا۔ ایسے موقع پر خود کو حق بجانب قرار اور تسلی دینے کے جوابات تلاش کرنا۔ کبھی اس عمل کو خود داری سے تعبیر کرنا تو کبھی احساس کمتری کے کونے کھدرے میں کھڑا ہو جانا۔
شہری دیہاتی شہر میں رہتے ہوئے زندگی بھر شش و پنج میں مبتلا رہتا ہے۔ طے نہیں کر پاتا۔ کوئی اسے بدتمیز تو کوئی اسے نک چڑھا کہتا ہے مگر وہ ایسا نہیں ہوتا، وہ سب سے ملنا چاہتا ہے مگر کسی کے اسٹیٹس اور برتری کو تسلیم کیا بغیر۔ یہی وجہ ہے کہ یہ شہری دیہاتی مالی و سماجی طور پر ایک اوسط کامیاب زندگی گزار لے تو بڑی بات ہے۔
شہری دیہاتی ریا کاری اور منافقت کو پسند نہیں کرتا۔ اس لیے کوئی بھی اسے اہمیت نہیں دیتا۔ وہ حاسد و چال باز نہیں ہوتا، دل کا صاف ہوتا ہے۔ غیر ضروری طور پر کسی سے چپکنا نہیں چاہتا۔ اگر وہ کسی سے ہاتھ ملا بھی لے اور اس کے بعد کوئی دوسرا آدمی آ جائے تو وہ کوشش کرتا ہے کہ وہاں سے ہٹ جائے۔ اپنی اس حرکت کو کبھی کبھی وہ خود بھی اچھا نہیں سمجھتا لیکن وہ سمجھتا ہے کہ سلام دعا کر لی، کافی ہے۔ اگر اسے شائبہ بھی ہو جائے کہ سلام کو خوشامد سمجھ لیا جائے گا تو ہاتھ تو کیا ہلکا سا سر ہلا کر بھی سلام نہیں کرتا۔ وہ اسے عزت نفس کے خانے میں رکھتا ہے۔
شہری دیہاتی نمایاں ہونے سے بہت ڈرتا ہے۔ وہ تو اپنی شادی تک میں مرکز نگاہ بننے پر بھی بہت زیادہ خوش نہیں ہوتا۔ شہری دیہاتی کو اگر کوئی بہت اہمیت دے تو خوف ذدہ ہو جاتا ہے۔ سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ شہری دیہاتی کو اپنی صلاحیتوں کو اندازہ ہوتا ہے مگر ہمیشہ low profile میں رہنا پسند کرتا ہے۔ یہ کام کی جگہ پر بڑے کام کا پرزہ ہوتا ہے مگر مشین میں خاموشی سے لگا رہتا ہے۔ چیختا چلاتا نہیں۔ اس لیے کوئی اس کی اہمیت کا احساس نہیں کرتا۔ اگر کبھی اپنے ہونے اور اہم ہونے کا کہے تو کچھ دے دلا کر خاموش اور خوش کرا دیا جاتا ہے۔
لوگ دفتری زندگی میں نظروں میں آنے کے لیے کیا کیا جتن کرتے ہیں۔ یہ اور سمٹ جاتا ہے۔ کوئی اس کے کام کا کریڈٹ لے تو اندر ہی پیچ و تاب کھاتا ہے مگر کچھ نہیں کہتا اور اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیتا ہے۔ کبھی کسی کے کام کا کریڈٹ خود لینے کو گناہ سمجھتا ہے۔ اس کے ساتھ بار ہا زیادتی ہوتی ہے مگر یہ خاموش رہتا ہے۔ اس کی سوچیں اپنا حق مانگنے اور اس پر آواز اٹھانے کو خود نمائی سمجھتی ہیں۔
شہری دیہاتی جب کبھی ہوشیار بننے کی کوشش کرتا ہے۔ بری طرح مارا جاتا ہے کیونکہ ہوشیاری فنکاری مانگتی ہے اور وہ اس کاری فن سے ناواقف ہوتا ہے۔ باتیں ہزار ہیں۔ ان جیسے لوگوں کو شہر میں رہنے کا کوئی حق نہیں مگر یہ کہاں جائیں۔
ایک دن اسی شہر کے کسی شہر خموشاں میں سپرد خاک کر دیئے جاتے ہیں۔ جنازے میں بس اسٹاپ پر کھڑے جتنے لوگ بھی نہیں ہوتے۔ اطلاع ملنے پر کوئی ایک شریک جنازہ ہو جاتا ہے۔ اس کے اپنے آفس کے لوگ نہیں آتے۔ کوئی سنتا ہے تو بس اتنا کہتا ہے اچھا! انا للہ کہنے کی زحمت بھی کم کم لوگ گوارا کرتے ہیں۔ توفیق ہو تو اولاد قبر پر چلی جاتی ہے۔ ان کے علاوہ قبرستان میں ہونے پر بھی کوئی ان کی قبر پر نہیں جاتا۔ زندگی میں بھی غیر اہم رہے اور مرنے کے بعد بھی۔ یہ اور اس کی یادیں دونوں دفنا دی جاتی ہیں۔ اپنے پرائے سب یہی کہتے ہیں کیا خاک کیا کسی کے لیے۔
خاک تھے خاک ہو گئے یہ لوگ