Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azhar Hussain Azmi
  4. Mukalama, Muqabla, Daleel, Zaleel

Mukalama, Muqabla, Daleel, Zaleel

مکالمہ، مقابلہ، دلیل، ذلیل

جس معاشرے میں دوسرے کی بات سننے کی عادت ختم ہو جائے وہ معاشرہ ہر لحاظ سے ابتری کی طرف چلا جاتا ہے۔ جس معاشرے میں بات صرف جواب دینے کے لئے سنی جائے وہاں اتحاد و اتفاق کا بیج کیسے بویا جا سکتا ہے۔ انتشار و انکار کی جڑیں گہری سے گہری ہوتی چلی جاتی ہیں۔

آج ایک یار باصفا سے بات ہوئی تو کہنے لگے کہ ہمیں ایک دوسرے سننے اور سمجھنے اور اس ہر غیر جانبدار تبصرے اور رائے کے کلچر کو فروغ دینا ہوگا۔ بیٹھنا ہوگا، کسی بھی مسئلے پر کسی نتیجے پر پہنچنا ہوگا۔ دوسرے کی بات سننا بنیادی طور پر دوسرے کے حق کو تسلیم کرنا ہے۔ سننے میں سب سے زیادہ فائدہ آپ کا ہے۔ آپ میں تحمل و برداشت پیدا ہوتا ہے۔ ایک نیا نقظہ نظر سامنے آتا ہے۔ سامنے والے کی کسی عام سی بات سے کوئی نیا اور گہرا نقظہ سامنے آتا ہے۔ آپ کبھی اعلانیہ تو کبھی غیر اعلانیہ دوسرے کی بات تسلیم کرتے ہیں۔ کوئی myth، کوئی مفروضہ بہت خاموشی سے دم توڑ دیتا ہے۔ سالوں سے گرد آلود اور تعفن زدہ سوچوں کے بت بلکہ سومنات کے مندر ٹوٹتے ہیں۔ ہم میں سے کوئی عقل کل نہیں اور اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے تو وہ عقل گل کے خانے میں آتا ہے۔

تحمل اور برداشت کا دامن تار تار نہ کیجئے، کوئی کچھ بھی کہے آج کے دور میں ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز نے ہمارے ذہنوں پر انتہائی منفی اثر ڈالا ہے۔ ہمیں دوسرے کی بات سننے اور سمجھنے سے بے بہرہ کر دیا ہے۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ اپنی یا اپنی پارٹی کے نقظہ نظر جو ثابت کرنے کے لیے اپنے مقام سے بہت نیچے آ جاتے ہیں۔ تحمل اور برداشت کا دامن چھوڑنے سے بات اب دوسرے کا دامن تار تار کرنے تک پہنچ چکی ہے۔

قدرت کا انمول تحفہ کان ہے مگر ہم نے اسے تعصب و جانبداری کی دکان بنا دیا ہے اور اس ہر "دوسرے کی بات سننا گناہ ہے" کا بورڈ لگا دیا ہے۔ سوچئیے جب آپ کسی کی بات نہیں سنیں گے تو مکالمہ کیسے ہوگا۔ اختلاف ہر گفتگو کیسے ہوگی۔ جس معاشرے میں مکالمہ نہ ہو وہاں صرف مقابلے کی فضا قائم رہتی ہے اور ہار سب کے حصے میں آتی ہے۔

مکالمہ کیجئے۔۔ مقابلہ نہیں

مکالمہ دراصل سفید چاندنی بچھا ایک فرش ہے جس پر سب کو بیٹھنے کی اجازت ہے۔ سب کے لیے مساوی جگہ ہے۔ کسی کے لیے تنگ نظری نہیں۔ سب کے لئے ذہنی کشادگی ہے۔ جب آپ اس فرش کو ہی نہیں بچھائیں گے تو مکالمہ کیسے ہوگا؟ مقابلہ تو ایک میدان ہے جہاں سب اپنی اپنی بولی بولتے ییں۔ کان پڑے آواز سنائی نہیں دیتی۔ ایسے میں اختلاف کی خلیج کون پاٹے گا۔ سب ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑیں گے اور یہ تو ہم سب کو معلوم ہے کہ کاٹتا کون ہے؟

دلیل دیجئے۔۔ ذلیل نہ کیجیے

ایک نقطے کے فرق میں نکتے کی بات یہ ہے کہ سماعتوں کو سادہ و آسان رکھیں۔ منافقت کی تپش، عصبیت کی خلش اور عداوت کی رنجش سے پاک رکھیں۔ بات صرف جواب دینے کے لیے نہ سنیں، بات کو سمجھیں۔ آپ ہمیشہ صحیح اور دوسرا ہمیشہ غلط تو نہیں ہو سکتا ہے۔ سامنے والے کو مقابل نہ سمجھیں اس کی گفتگو کا تقابل کریں۔ بات صحیح ہو تو مانیں۔ معترف ہوں، صرف اپنی انا کی خاطر معترض نہ یوں۔ اختلاف ہو تو دلیل دیجئے، ذلیل نہ کیجیے۔

About Azhar Hussain Azmi

Azhar Azmi is associated with advertising by profession. Azhar Azmi, who has a vast experience, has produced several popular TV campaigns. In the 90s, he used to write in newspapers on politics and other topics. Dramas for TV channels have also been written by him. For the last 7 years, he is very popular among readers for his humorous articles on social media. In this regard, Azhar Azmi's first book is being published soon.

Check Also

Adh Adhoore Log

By Muhammad Ali Ahmar