Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azhar Hussain Azmi
  4. Main Adakara Uzma Gilani Ko Aap Ki Tehran Nahi Janta

Main Adakara Uzma Gilani Ko Aap Ki Tehran Nahi Janta

میں اداکارہ عظمی گیلانی کو آپ کی طرح نہیں جانتا

"وارث" میں مستقبل کی وراثت دار قرار پائیں۔ "دہلیز" پر قدم رکھا تو ہر دل میں گھر کرتی گئیں۔ "پناہ" سے بے پناہ عزت و احترام حاصل کیا۔ فن میں" فراق " کا وقت آیا۔ " دستار انا " بھی پہنی مگر " سچ " کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ ساتھ میں" نشمین " کا ایک ایک تنکا جوڑتی چلی گئیں۔

میرا اندازہ ہے کہ چند ایک لوگ اس تعارف نامہ کو پہچان گئے ہوں گئے۔ یہ مختصر تعارف نامہ ایک بڑی فنکارہ کا ہے کہ جنھوں نے اب تک 100 سے زائد ڈراموں میں ہر کردار کو جزئیات کے ساتھ ادا کرکے اداکاری کو اعتبار بخشا ہے۔ 1971 سے شعبہ اداکاری سے وابستہ یہ فنکارہ حکومتی سطح پر 1982 میں پرائڈ آف پرفارمنس حاصل کرنے والی پہلی خاتون اداکارہ ہیں۔ نام بتانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ عظمی گیلانی کے علاوہ کون ہوسکتا ہے۔

عظمی گیلانی کا ددھیالی تعلق دلی سے ہے جبکہ ننھیال میرٹھ کی ہے جہاں آپ کی پیدائش ہوئی۔ ڈپٹی نذیر احمد آپ کے ننھیال سے تعلق رکھتے تھے۔ پاکستان میں پہلے قیام بہاول پور میں رہا پھر شادی کے بعد لاہور منتقل ہوئیں اور اب آسٹریلیا ان کا مستقر قرار پایا ہے گو کہ اداکاری کے سلسلہ میں آپ کا پاکستان میں بھی قیام رہتا ہے۔ مسز گیلانی جب ساتویں جماعت میں تھیں تو ایک اخبار میں عظمی ظہیر الدین کے نام سے کہانیاں لکھا کرتی تھیں۔ تحریر کی یہ خداداد صلاحیت یقینا ان کے ننھیال سے ودیعت ہوئی ہوگی۔

ان عظمی گیلانی کو میں بھی 1991 تک جانتا تھا اور ان کی اداکارانہ صلاحیتوں کا ایک زمانہ کی طرح معترف تھا۔ وہ تو یوں کہیئے کہ ایڈورٹائزنگ میں آنا ہوا اور 1991 میں جن عظمی گیلانی سے ملا۔ وہ اداکارہ نہیں بلکہ ایک ایڈورٹائزر تھیں اور بلیزون کے تین پارٹنرز میں سے ایک تھیں۔ مسز گیلانی لاہور آفس سنبھالتی تھیں لیکن ان کا کراچی آفس بھی آنا جانا رہا کرتا تھا۔ جب کراچی میں ہوتیں تو کلائنٹ سے میٹنگ میں مکمل پیشہ ورانہ انداز میں شریک ہوتیں اور دور دور تک اداکارہ عظمی گیلانی کا شائبہ نہ ہوتا۔

ہم نے بھی 90-1989 میں منو بھائی (منو بی۔ باڑیا) کے ذریعے ملازمت کی کوشش کی مگر بلیزون میں انٹرویو تک کے لئے نہ پہنچ پائے۔ ایک سال بعد ایک دن بلیزون کے کریٹیو مینجر زیب ڈیل کی کال آگئی۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ پہنچ گئے۔ پتہ چلا کہ کام دیکھنے کے لئے ایک دو کام کرکے دکھانے ہوں گئے۔ یہ مرحلہ باآسانی پار کیا اور ملازمت پر چڑھ دوڑے۔ چند روز بعد مسز گیلانی کراچی تشریف لائیں۔ تعارف کرایا گیا (تعارف کیا جناب سیدھا سیدھا نام بتا دیا گیا۔ ہم نے ایڈورٹائزنگ میں ایسے کون سے تیر چلا دیئے تھے کہ کامیابیوں کا طومار پیش کیا جاتا)۔ مسز گیلانی اپنے ہنس مکھ چہرے کے ساتھ ملیں اور اپنی کتاب " ع سے عورت، م سے مرد" دستخط کے ساتھ دی۔ جہاں تک مجھے یاد پڑ رہا ہے اس کا فلیپ محترم احمد ندیم قاسمی نے لکھا تھا جو یقینا کتاب کی اہمیت اور مسز گیلانی کی علمی شخصیت کا اعتراف تھا۔

دوران ملازمت مسز گیلانی سے گاھے گاھے ملاقات رہی اور ان کی پر اثر شخصیت کے پرت کھلتے چلے گئے۔ کلائنٹ کے ساتھ میٹنگز میں آپ کی شرکت بہت کارگر ثابت ہوتی۔ ایک مرتبہ آصف رضا میر صاحب، مسز گیلانی اور میں سائٹ ایریا ایک کلائنٹ سے میٹنگ کے لئے جارہے تھے۔ ناظم آباد پہلی چورنگی کے علاقہ سے گزر رہے تھے کہ مسز گیلانی کو کسی وجہ سے کار کا شیشہ نیچے کرنا پڑ گیا۔ روڈ پر ٹریفک کا رش تھا۔ لوگوں نے دیکھ لیا۔

اب صورت حال یہ کہ ایک طرف لوگ بس کے شیشے سے جھانک رہے ہیں اور مسز گیلانی کو دیکھ کر ہاتھ ہلا رہے۔ کچھ حیرت سے دیکھے چلے جارہے۔ طرفہ تماشا یہ ہوا کہ ساتھ ہی ایک گدھے گاڑی والا جا رہا تھا۔ اس نے جو مسز گیلانی اور ذرا جھانک کر دیکھا تو ڈرائیونگ سیٹ پر آصف صاحب کو بیٹھے دیکھا۔ گدھا گاڑی کو مارے خوشی کے بیچ روڈ پر ہی لگا کر دونوں کو دیکھنے لگا۔ ہارن پر ہارن بجنا شروع ہوگئے۔ باہر ٹریفک جام ہوچکا تھا اور میں اندر صورت حال سے محظوظ ہو رہا تھا۔ مسز گیلانی کا آرٹسٹ جاگ چکا تھا۔ وہ دور سے ہاتھ ہلانے والے ہر ایک شخص کو مسکرا مسکرا دیکھ رہی تھیں۔ بڑی مشکل سے آصف صاحب نے گاڑی نکالی اور ہم کلائنٹ کے پاس پہنچے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب کیبل کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا اور ہمارے آرٹسٹ پرستاروں کے دلوں میں بستے تھے اور ہمارے آرٹسٹ بھی اپنے پرستاروں سے اسی قدر والہانہ محبت کیا کرتے تھے۔ منہ بسوڑ کر چہرہ دوسری طرف نہ کر لیا کرتے تھے۔

کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ بلیزون لاہور کا کام بھی کرنا پڑ جاتا۔ ایک دن مسز گیلانی کا فون آیا کہ مجھے خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق ایک تقریب میں تقریر کرنی ہے۔ ایک مختصر مگر جامع تقریر لکھ دو۔ ہم نے قلم اٹھایا اور چلا دیا۔ پہلے تو دو بچے ہی اچھے کے لئے دلائل دیئے اور پھر آگئے اپنی ڈھب پر اور تقریر کا اختتام اس شعر پر کردیا۔

ایک بیوی ہے چار بچے ہیں
عشق جھوٹا ہے لوگ سچے ہیں

مسز گیلانی کی کچھ دیر بعد کال آئی، مسکرا کر بولیں" یہ تم اپنی چلبلی طبیعت سے باز نہیں آو گئے۔ آخری شعر کی کیا ضرورت تھی؟"۔ میں نے کہا کہ مسز گیلانی یہ جملہ لائٹر ٹون میں ہے۔ لوگ محظوظ ہوں گئے۔ مان گیئں اور میرا خیال ہے کہ انہوں نے یہ شعر اپنی تقریر میں پڑھ دیا ہوگا۔

میری شادی ہوئی تو نہ صرف خاص طور پر لاہور سے بارات میں شرکت کے لئے آئیں بلکہ بلیزون لاہور کی طرف سے تحفہ بھی ساتھ لائیں۔ یہ اس زمانہ میں بلیزون کا کلچر ہوا کرتا تھا کہ سالگرہ، شادی وغیرہ میں پورا بلیزون کسی نہ کسی طرح شریک ہوتا۔ شادی کے بعد جب میں اہلیہ کے ساتھ گھومنے گیا تو اصرار کیا کہ تم میرے ہاں ہی رکنا۔ میں وہاں نہ رکا اور شام کو سیدھا ہوٹل چلا گیا۔ والد صاحب نے لاہور مسز گیلانی کے ہاں فون کردیا کہ میں وہاں پہنچا کہ نہیں۔ رات ہوٹل سے مسز گیلانی سے بات ہوئی تو والد صاحب کے فون کا بتایا اور نہ آنے پر خفگی کا اظہار کیا۔ کہنے لگیں کہ میں صبح گاڑی بھیج دوں گی۔ آپ یہاں تشریف لے آئیں۔ یہ مسز گیلانی کی محبت اور اپنائیت تھی جو وہ ہر ایک کے ساتھ روا رکھتی تھیں۔

مسز گیلانی نے اپنی سوانح عمری " جو ہم پہ گزری " لکھی۔ یہ نام مشہور مزاح نگار انور مقصود نے تجویز کیا۔ مسز گیلانی سادہ طبیعت ہیں۔ آپ ان سے ملیں تو ان کے رویہ سے قطعا احساس نہ ہوگا کہ آپ اپنی ذات میں ادارہ کا درجہ رکھنے والی اداکارہ سے مل رہے ہیں۔

مسز گیلانی کیسی اداکارہ ہیں؟ رموز اداکاری سے کتنا واقف ہیں؟ تو جناب میں کس گنتی میں آتا ہوں کہ لب کشائی کروں۔ اداکاری سے متعلق میرا ذاتی خیال اور تجزیہ یہی ہے کہ منجھا ہوا اداکار وہ ہوتا ہے کہ جس میں اسے دیا گیا کردار بولے، اداکار نہ بولے۔ آجکل ڈارمہ دیکھ کر لگتا ہے کہ کردار کوئی بھی ہو اداکار بول رہا ہوتا ہے۔ بالکل ایسے ہی آپ ہوٹل چلے جائیں تو ہر کھانے کا مزہ ایک سا ہی ہوتا ہے۔ عظمی گیلانی (یہاں مسز گیلانی نہیں لکھوں گا) کا کوئی ڈرامہ دیکھ لیں اس میں کردار بول رہا ہوتا ہے۔

میرا رابطہ تو مسز گیلانی سے بطور پروفیشنل شخصیت رہا ہے۔ اتنا جانتا ہوں کہ وہ ایڈورٹائزنگ میں آئیں تو سنجیدگی اور متانت کے ساتھ ایک گہرا اثر چھوڑ گئیں۔ سادہ سی ساڑھی میں ملبوس، میک آپ سے بے نیاز مسز گیلانی ہر انداز میں لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانے کا ہنر جانتی ہیں۔ یہ وصف خدا ہر ایک کو نہیں دیتا۔

مسز گیلانی درحقیقت اداکاری میں سربلند ہونے کے ساتھ ساتھ کینسر جیسے مرض کو شکست دے کر ہمت و حوصلہ مندی کی جیتی جاگتی تصویر بن گئی ہیں۔ مسز گیلانی سے ملے مجھے سالوں بیت گئے ہیں مگر اب جب لکھنے بیٹھا ہوں تو لگتا ہے کہ کچھ دیر پہلے ہی میٹنگ سے آکر اپنی کرسی پر بیٹھا یہ سب لکھ رہا ہوں۔ ذہن کے پردے پر سب کچھ تازہ بہ تازہ ہے۔ بالکل مسز گیلانی کی دلاویز مسکراہٹ کی طرح۔

About Azhar Hussain Azmi

Azhar Azmi is associated with advertising by profession. Azhar Azmi, who has a vast experience, has produced several popular TV campaigns. In the 90s, he used to write in newspapers on politics and other topics. Dramas for TV channels have also been written by him. For the last 7 years, he is very popular among readers for his humorous articles on social media. In this regard, Azhar Azmi's first book is being published soon.

Check Also

Holocaust

By Mubashir Ali Zaidi