Sunday, 08 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azhar Hussain Azmi
  4. Kuch Yaad Hain Wo Galiyon Mein Lage Shamiyane

Kuch Yaad Hain Wo Galiyon Mein Lage Shamiyane

کچھ یاد ہیں وہ گلیوں میں لگے شامیانے

ہمارے ماضی میں اخلاق، رواداری، رشتوں کا احترام، تعلق داری میں وضع داری سب کچھ تھا۔۔ کیا کیا لکھوں؟ سوچتا ہوں تو الفاظ ڈھونڈنے پڑتے ہیں مگر پھر بھی اظہار تشنہ ہی رہتا ہے۔

بشیر بدر نے کہا تھا

سات رنگوں کے شامیانے ہیں

دل کے موسم بڑے سہانے ہیں

کوئی تدبیر بھولنے کی نہیں

یاد آنے کے سو بہانے ہیں

ہم جیسے نہ جانے کتنے لوگ جب چاھتے ہیں یادوں کے رنگین شامیانوں کے تلے بیٹھ جاتے ہیں۔ ان شامیانوں سے ماضی کی کیا یادیں جڑی ہیں؟ ابھی شامیانہ زمین ہر بچھا ہی ہوتا۔ ڈیکوریشن والے اس کے کونے پر بانس لگا رہے ہوتے اور ہم اس شامیانے پر ایسے چلتے جیسے کمخواب پر چل رہے ہیں۔ گلی میں بغیر بڑے سوئے گاڑ کر یا گھروں کے گیٹ، کھڑکیوں یا سیمنٹ کی جالیوں سے رسیاں کس کر طنابیں کھینچ دی جاتیں اور شامیانہ اٹھ کھڑا ہوتا۔ یہ سب دن میں ہو جاتا۔ رات میں تقریب ہونی ہوتی۔ منگنی، عقیقہ کی تقریب یو تو شامیانہ چھوٹا اور اگر بارات یا ولیمہ یو تو شامیانہ بڑا لگتا۔

شامیانہ لگنے کا مطلب ہوتا کہ اب گلی والے تقریب کا موڈ بنا لیں۔ لڑکیاں بالیاں اپنے کپڑے، چوڑیاں اور میک آپ کی چیزیں دیکھ لیں۔ گھر کے لڑکوں کی اچھی سی پینٹ اور شرٹ ماں یا بہن پہلے سے استری کرکے رکھ دیتیں۔ شام ہوتے ہوتے ایک جمعدار آ جاتا جو گلی میں جھاڑو لگا دیتا جس کی دھول پوری گلی میں اڑتی۔

اب شام ہو چلی ہوتی۔ عورتوں مردوں کے لیے بیچ حد فاصل قائم کرنے کی غرض سے قناتیں کھینچ دی جاتیں۔ کرسیاں جو ایک طرف سمٹی سمٹائی ایک دوسرے پر چڑھی بیٹھی ہوتیں۔ اب ایک ایک کر بچھا دی جائیں گی۔ جس گھر کی تقریب ہے اس گھر کے سب سے عمر رسیدہ بزرگ سب سے پہلے ایک کرسی پر بیٹھ جائیں گے۔ پان کی پوٹلی ان کے پاس ہوگی۔ سر پر کیپ اور اور آنکھوں پر موٹی ںظر کا چشمہ جس سے ان کو صاف نظر آئے نہ آئے لیکن دیکھنے والے کو ان کی چشمے سے ابلتی آنکھیں ضرور نظر آئیں گی۔

میں چشمے کی ایجاد کو ایک بہت کار آمد اور نظر ٹھہراو مانتا ہوں۔ یہ الگ بات ہے کہ جن کو چشمہ لگ جائے پھر ان کو چشم بینا سے سائرہ، ٹریا، تابندہ اور بینا صاف صاف نظر آتی ہیں۔ نظر کمزور ہونا کوئی عیب نہیں نظر خراب ہونے میں بڑا خرابہ ہے۔ اس سے کوئی انکار نہیں کہ کچھ لوگوں پر چشمہ بہت اچھا لگتا ہے، کچھ چشمے میں اچھے لگتے ہیں۔ کچھ چشموں کا فریم انسانی چوکھٹے پر سجتے ہیں اور کچھ پر گھر کی چوکھٹ کا گمان ہوتا ہے۔ کچھ چہرے بنتے ہی چشمے کے لیے ہیں۔ آپ انہیں بغیر چشمے دیکھنے کا سوچ بھی نہیں سکتے اور اس شخض کو کچھ لمحے بغیر چشمے کے دیکھ لیں تو اس کی حد سے زیادہ کھلی آنکھیں دیکھ کر دیکھنے والے کی اپنی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں۔

خیر گلی کی عورتیں اور لڑکیاں پہلے شامیانے میں پہنچ جاتیں۔ دلچسپ صورت حال اس وقت ہوتی جب کبھی کبھار ان کو مردوں کے شامیانے سے گزرنا پڑتا۔ میک آپ اور زرق برق لباس میں ملبوس گھر کی عورتیں اپنی اپنی نہ لگتیں۔ کچھ بڑی عمر کی عورتیں اتنی بڑی چادر سر پر ڈال لیتیں کہ بردہ فروش لگتیں۔ اس زمانے میں بیوٹی پارلر نہ ہوتے تھے۔ میک آپ کے سامان میں بھی زیادہ چیزیں نہ آتیں۔ لڑکیاں خود یا پھر ایک دوسرے کا میک آپ کر لیا کرتیں۔ میک آپ کے sense سے زیادہ اہم بات یہ ہوتی کہ لگنا کس اداکارہ جیسا ہے۔ آپ آپ سوچیں شمیم آرا ٹائپ چہرے پر اگر نیلو کے چہرے کا میک آپ کر دیا جائے تو کیسا لگے گا؟

کچھ بڑی عمر کی عورتوں کے چوڑے چہروں پر بیٹیاں ایسا بھرا بھرا میک آپ کرتیں کہ وہ عورتوں کی سلطان راہی لگتیں۔ اس زمانے میں بالوں کا جوڑا اور اس پر پھول لگانے کا بھی بہت رواج تھا۔ ہمارے چچا کہا کرتے تھے میک آپ کے بعد عورت کی شکل اور جوڑے باندھنے کے بعد عقل کو بھول جاو۔ جب سر پر ایک ایک سیر کے گلدستے رکھ لیں گی تو دماغ کہاں کام کرے گا۔

محلے کی تقریب ہوتی اس لیے گلی کے مرد پینٹ شرٹ میں آ کر بیٹھ جاتے اور گلی کے کسی کم عقل مرد سے ہنسی مذاق شروع کر دیتے۔ گلیاں تنگ ہوتیں۔ اس لیے تین تین کرسیوں کی دو رو بنا دی جاتیں۔ اس کے بعد چلنے کی جگہ ہرانے شہر کی تنگ گلیوں جیسی ہو جاتی۔ مردوں والے حصے میں قدرے سکوں ہوتا۔ عورتوں والے پورشن میں بڑی رونق لگی ہوتی۔ اسی دوران کسی کی تازہ تازہ شوخی تحریر کا حاصل بچہ نقش فریادی بنا ہوتا۔ بارات آتی تو ہلکی سی بے ترتیبی ہوتی پھر سب سیٹ ہو جاتا۔ نکاح کے چھواروں پر گلی کے چھورے بانٹنے والے کو تنگ کر دیا کرتے۔ نکاح ہوتا تو رشتے دار اور گلی کے لوگ دولھا کو مبارکباد دینے آگے بڑھتے۔ اسٹیج کے زمانے نہیں تھے۔ بس ڈیکوریشن کا صوفہ اور ایک میز سامنے رکھ کر دولھا کو عزت دے دی جاتی۔

بارات بہت دیر سے آنے کا رواج نہ تھا۔ ایک مرتبہ ہماری گلی میں ایک بارات کوئی بارہ بجے کے قریب آئی۔ پوری گلی قل ھو اللہ پڑھ رہی۔ دولھا کے والد دیر سے آنے کی مختلف وجوہات بتا رہے تھے مگر سب اپنی اپنی کہانیاں بنا رہے تھے۔ اکثر خیال تھا کہ دولھا نے عین وقت پر اپنی اوقات دکھا دی اور زیادہ ہی مانگ لیا ہے۔ اللہ اللہ کرکے برات آئی، نکاح ہوا، دولھا نے سہرا اٹھایا تو کسی کو ایک نظر نہ بھایا۔ اصل میں بھوک کا غصہ چڑھا ہوا تھا اور سب کچھ زہر لگ رہا تھا۔ گلی کے ایک صاحب کو آنت زیادہ تنگ کر رہی تھی، ترنت بولے "ابے بھائی اس کے لیے اتنی دیری؟ کسی بھی ویگن میں گھس جاتے، اس سے بہتر مل جاتا"۔

موبائل تو آئے نہ تھے۔ فوٹو گرافر کا سارا زور چلتا جس پر گھر کے سب سے بڑے کا زور چلتا۔ وہ بتاتا کہ کس کس کی تصویریں اتارنی ہیں۔ جن کی تصویر نہ اترتیں ان کا چہرہ اتر جاتا۔ کچھ اڑیل قسم کے لوگ دولھا سے گلے ملتے اور جب تک دولھا کے آزو بازو کھڑے ہو کر تصویر میں نہ آ جائیں، ہٹتے نہیں۔ پھوپھا، خالو، بہنوئی اور داماد کا تصویر کے وقت ادھر ادھر ہو جانا اور بعد میں ہنگامہ کھڑا کرنا محبوب مشغلہ ہوتا۔ محلے میں ایک مفتا گروپ بھی ہوتا جو عین کھانے کے وقت پہنچتا۔ ان کو کبھی تو کچھ نہ کہا جاتا لیکن کبھی آدھا نوالہ منہ میں اور آدھا ہاتھ میں کے ساتھ شامیانہ بدر کردیا جاتا۔ ان شامیانوں میں ڈھول والے بھی اللہ جانے کہاں سے آ نکلتے اور پیسے لیے بغیر نہ ٹلتے۔

یہ لال پھولدار شامیانے بڑے رومانٹک ہوا کرتے تھے۔ گلی کی شوخ و چنچل لڑکیاں اپنی پکی سہیلی کے ساتھ ایک ہی پلیٹ میں کھانا کھاتیں۔ محلے کی کچھ بوڑھی عورتیں انہیں دیکھ کر جلی جاتیں بلکہ کسی کو سنا بھی دیا کرتیں: اے بٹیا، ایسی کون سی پلیٹیں کم پڑ گئی تھیں کہ تم ایک پلیٹ میں شروع ہوگئیں۔ عورتوں کو کھانے کھلانے کے لیے خاندان یا محلے کے لڑکے آ جاتے تو لڑکیاں برا نہ مناتیں۔ بڑی بوڑھیاں تاڑ جاتیں کہ کون سا لڑکا کس ٹیبل کے گرد چکر لگا کر کس لڑکی کے چکر میں ہے۔

یہ سب منظر، یہ سب یادیں بہت حسین ہیں۔ آپ پس منظر سے شامیانہ نکل دیں۔ سب کچھ پھیکا پھیکا ہو جائے گا۔ اب تو یہ حال ہے کہ قریبی لوگ بھی شادیوں میں دکھاوے کے لیے شریک ہوتے ہیں۔ اس زمانے میں ہر خوشی میں سب شریک ہوا کرتے تھے یہاں تک کہ شامیانے بھی۔

About Azhar Hussain Azmi

Azhar Azmi is associated with advertising by profession. Azhar Azmi, who has a vast experience, has produced several popular TV campaigns. In the 90s, he used to write in newspapers on politics and other topics. Dramas for TV channels have also been written by him. For the last 7 years, he is very popular among readers for his humorous articles on social media. In this regard, Azhar Azmi's first book is being published soon.

Check Also

Mujaddid Alf Sani

By Zubair Hafeez