Khandan Thay To Pandan Thay (2)
خاندان تھے تو پاندان تھے (1)
جس دن پاندان کا یوم صفائی ہو تو سمجھ لیں کہ صحن میں پاندان، اس کی بڑی طشتری، کلیاں وغیرہ جہیز کی طرح بکھری پڑی ہیں۔ صحن میں کرفیو کا سماں ہے۔ کسی کو قدم رکھنے کی اجازت نہیں۔ بہوئیں بچوں کو ایسے کمروں میں بند رکھتیں جیسے صحن میں کوئی بردہ فروش بیٹھی ہو۔ اللہ جانے پاندان کو مانجھنے کے لیے کہاں سے بجری لے آتیں پھر وہ رگڑائی کرتیں کہ قلعی ہی اتر جائے۔ اس کے بعد ان پر وہ پانی بہایا جاتا کہ جیسے پاندان کا غسل آخر ہو رہا ہے۔ کتھے اور چونے سے پورا صحن دو رنگی لکیریں کھینچتا چلا جاتا۔ بہوؤں کو بجری کی کچر کچر چھالیہ کی کتر کتر سے زیادہ دانتوں کو لگ رہی ہوتی۔
اب پاندان، طشتری اور کلیوں میں سے کچھ کو سجدہ ریز تو کچھ کو حالت رکوع میں رکھ دیا جاتا تاک پانی کا ایک ایک قطرہ صحن میں کسی کے پیر پڑے بنا جذب ہو جائے۔ اگر لگتا کہ کوئی بہو کمرے میں کھسر پھسر کر رہی ہے تو کہتیں:
ہم بیگار نہیں ٹالتے بھیا۔ جب بچے چھوٹے تھے تب بھی گھر میں ثابت مصالحے آتے اور ہاون دستے سے کوٹتی اور سب انگلیاں چاٹتے رہ جاتے۔ یہ جو تم ہر وقت تیار نظر آتی ہو تیار مصالحے نہ ہوں تو چہرے کی ساری قلعی اتر جائے۔
پاندان کی حفاظت جان سے بڑھ کر ہوتی۔ بس عبادت کے وقت ہی یہ حفاظت ہلکی پڑ جاتی اور ایسے میں کوئی بچہ دھاوا بول دیا کرتا۔ کھٹ کھٹ سے پہچان لیتیں کہ کون ہے۔ پڑوس کی عورت کو بہو کی شکایت کرتے ہوئے بتانے لگیں: ایک دن میں وضو کو اٹھی اور اسلم کا چھوٹ والا پہنچا پاندان کے پاس، مجھ کم بخت ماری نے بس اتنا کہہ دیا کہ ذرا دیکھ لو کہیں کچھ پھانک نہ لیوئے۔۔ لو بھیا وہ تو تلی بیٹھی تھیں۔ تنک کر بولیں: ہماری اصل ساس تو یہ پاندان ہے۔
میں کہاں کی چپ رہنے والی تھی کہہ دیا: تم جلی مری جاؤ یہ پاندان تو تمہارے سینوں پر یونہی مونگ دلتا رہے گا۔ اب بتاؤ موا پاندان ساس کہاں سے ہوگیا۔ جب سے منہ سجائے کمرے میں پڑی ہیں۔ شام کو خصم آئیں گے تو قسم کھا کھا کہ ایک ایک کی دس دس لگائیں گی۔ لگاتی پھریں میری بلا سے۔ ذرا کچھ کہے تو اسلم طبیعت ہری کر دوں گی۔۔ ہاں نہیں تو!
ایسا بھی نہ تھا کہ بہوئیں ہر وقت چڑی رہتیں۔ کبھی کبھی پاس آ کر بیٹھ جاتیں اور خوب ہی ہنسی ٹھٹول ہوتا ہے۔ کوئی بہو پوچھ بیٹھتی: اماں ایمانداری سے بتائیے گا آپ نے زیادہ پیار کس سے کیا۔ ابا سے یا پاندان سے؟ اداس ہو جاتیں: ارے انہوں نے تو کبھی ایک لفظ نہ کہا۔ بس کبھی کبھی مذاق میں کہہ دیا کرتے:
سجو مرد دوسری شادی کرے تو سوتن لائے مگر اس پاندان کو میں کیا کہوں؟ میں کہتی: ارے میاں پان خرچی کا تو تم نے نکاح والے دن وعدہ کیا تھا تو خاموش ہو جاتے۔
ساری آنکھ مچولی اس وقت شروع ہوتی جب کسی بہو کی کوئی رشتے دار آجاتی اور وہ اسے اپنے کمرے میں لے جاتی۔ جل جاتیں: یہ کیا طریقہ ہے کوئی آوئے تو ایسے کرے ہیں کیا۔ مہمان تو پورے گھر کا ہووئے ہے۔ ملنے کا بہانہ ڈھونڈتیں۔ گلوری بنا کر موقع کی تاک میں ہوتیں۔ جہاں بہو باورچی خانے میں گئی اور یہ کمرے میں جاتے ہی پان کی گلوری مہمان کے منہ میں رکھ کر اس کا منہ بند کردیں اور پھر جو دل میں ہوتا، کہہ دیتیں: مہمان تو پلکوں کی طرح ہووئے ہیں اور بھلا پلکیں بھی کبھی آنکھوں پر بوجھ ہووئے ہیں نہ جانے کیوں ہماری بہوئیں مہمانوں کی چھپن چھپائی کھیلیں ہیں۔
بہو ساس کو کمرے میں دیکھتی تو ایک لمحے کو ٹھٹک جاتی۔ لحاظ میں کچھ کہنا چاہتی مگر یہ پہلے ہی بول پڑتیں: تم نہ ملواؤ مگر آئی تو ہمارے گھر ہی ہیں ناں۔ تم بیوی تو ہمارے بیٹے کی ہو۔ ہاتھی پھرے گاؤں گاؤں، جس کا ہاتھی اس کا ناوں۔ یہ کہہ کر جانے لگتیں تو بہو لحاظ میں بیٹھنے کا کہتی، تڑاخ سے جواب آتا: نہ بھیا بیٹھنے کی ناں۔ بغیر بلائے تو میں اوپر نہ جانے کی۔
پاندان کے قصے تو جیسے انہیں ازبر تھے۔ بہوؤں کا خیال تھا کہ ساس کی جان اس طوطے (پاندان) میں ہے مگر کیا کیجئے کہ اس گھر میں اسی طوطے کا طوطی بولتا۔ بتاتی ہیں۔ ایک دن میں تمباکو لینے بازار گئی۔ واپس آئی تو پاندان بہادر شاہ ظفر کی دلی کی طرح اجڑا پڑا تھا۔ لگے تھا کسی بچے کی کارستانی ہے۔ کتھا لگے بچے کے پیر بڑی بہو کے کمرے میں جا رہے تھے۔ مجھ سے صبر نہ ہوا۔ بڑی والی کمرے میں سر پر دوپٹہ باندھے سو رہی تھیں اور اس کا بیٹا کتھا چاٹ ریا تھا۔ ماں کے کپڑوں میں کتھا الگ لگا تھا مگر وہ کام چور درد کی پرانی مریضہ خراٹے لے رہی تھیں۔ میں نے کھری کھری سنا دیں۔ نیند جو خراب کر دی تھی۔ جھلا گئیں اور لگیں پاندان کو سنانے۔ بیٹے سے بولیں: کم بخت تجھے تو سلا کے سوئی تھی ددھیال پر جائے گا پان کھائے گا۔ بدنام کرے گا۔
میرے تو تن بدن میں آگ لگ گئی، اے بہنا! اب بچے ددھیال یا ننھیال ہر ہی جائیں گے۔ لیڈی ڈائن پر تو جانے سے رہے۔ مجھے کہتے کہتے خود بھی ہنسی آ گئی: اور اگر تم لیڈی ڈائن ہوتیں تو پھر صبح شام چار پھولوں میں تلتیں۔ یہاں تو بیاہ کر نہ آتیں۔ میرا یہ کہنا تھا کہ وہ کمرے سے یوں نکلیں جیسے تیر کمان سے نکلتا ہے۔
جب دیکھتیں کہ پاندان کی وجہ سے کچھ دنوں سے بہوئیں اور بچے آس پاس نہیں پھٹک رہے ہیں تو کسی روز ایک ایک کا نام لے کر اونچی آواز میں بلا لیا کرتیں اور پاندان کو بھی سنا دیتیں:
ارے اب کیا اس نگوڑ مارے پاندان کی وجہ سے رشتے ناتے ختم ہو جائیں گے۔ ارے خون ہے خون۔ کوئی کتھا تھوڑای ہے کہ صاف ہو جاوئے۔
اس دوران کسی کو آنے میں دیر ہوتی تو پھر اپنے رنگ میں لوٹ آتیں: کیا اب آنے کے بھی دعوت نامے بھیجے جاوینگے۔ سب آ جاتے تو پان کی گلوریاں بنا کر اپنے ہاتھوں سے ہر ایک کے منہ میں رکھتیں۔ اداس ہو جاتیں: ہمارا کیا ہے، آج مرے کل دوسرا دن، بجھتا چراغ ہیں۔ تم میری باتوں کا برا نہ منایا کرو۔ سب بہوئیں ہاں میں ہاں ملاتیں۔ کچھ جذباتی ہو کر انہیں اپنی بانہوں میں لے لیا کرتیں لیکن کچھ دن کے بعد پھر کسی خطا پر کشیدگی کا خط کھینچ دیا جاتا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب گھروں میں گنجائش ہو کہ نہ ہو مگر دلوں میں نہیں رہی۔ اس مادی دنیا میں برداشت کا مادہ ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ سب فیملیز کی صورت اپنے بیوی بچوں کے ساتھ الگ تھلگ زندگی گزار رہے ہیں۔ ایسے میں کس کو احساس ہوتا ہے کہ جس خاندان سے یہ فیملی بنی ہے۔ وہاں دو ضعیف آنکھیں ان کی راہ تک رہی ہیں۔ شاید کوئی ہان کھانے کے بہانے ہی چلا آئے۔ واقعی خاندان تھے تو پاندان تھے۔