Jawani Ke Amrood Aur Dard e Dil
جوانی کے امرود اور درد دل
جوانی زندگی کا ایسا دور ہوتا ہے جب بندہ ٹک کر نہیں بیٹھتا۔ دماغ لاکھ سمجھائے، کرنی دل کی ہے۔ اسی لیے سب کچھ سرپٹ گھوڑے کی طرح دوڑ رہا ہوتا ہے۔ ان میں کچھ خطرناک بیماریاں بھی ہوتی ہیں جو زیادہ دیر ٹھہر نہیں پاتی ہیں۔
ہم ہیٹ کے معاملے میں گیسیلے اور اس کے سبب وہمیلے واقع ہوئے ہیں۔ سو جوانی میں ایک عرصے تک جب گیس ہیٹ میں اوپر کی جانب مائل بہ فضا ہوتی تو سانس رکتی محسوس ہوتی۔ دل پر بوجھ سا بڑھتا تو زندگی ارادہ بہ قضا لگتی۔
ایک دن دفتر سے آ رہے تھے۔ ویگن گیٹا گیٹ بھری تھی۔ سب ایک دوسرے کی منہ سے باہر پھینکی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو اپنے لیے آکسیجن سمجھ رہے تھے۔ اس پر انواع و اقسام کے اجسام اور ان کے پسینے۔ غرض دل و دماغ سے ناک کے نتھنوں تک فضا گرم اور معطر تھی۔ اب ایسے میں گیس نے پیٹ میں انٹری ماری اور ہمارے گیس پیپر نے کہا کہ میاں یہ دل کا معاملہ ہے۔ سانس رک رک کر آرہی ہے اور سینے میں تکلیف بھی ہے۔ کچھ دیر کی تو بہت دیر ہو جائے گی۔
ویگن میں ایسے پیک تھے کہ سب ایک تھے۔ پوری ویگن امت واحدہ لگ رہی تھی۔ بڑی ہمت پکڑی۔ کچھ کو آگے پیچھے کرنے کی کوشش کی تو کسی کی کونی ٹھیک دل پر لگی۔ سانس اور اکھڑنے لگی۔ میں نے دل سے کہا اب تو ہمت پکڑ۔ کچھ دیر صبر سے سفر کر ورنہ میں بتا رہا ہوں میں تجھے اٹھا کر لے جانے سے رہا۔
اللہ اللہ کرکے لالو کھیت دس نمبر آیا۔ اتر گئے، اب دوسری ویگن جو پکڑنی تھی۔ باہر آ کر کراچی کی پیٹرول اور ڈیزل زدہ تازہ سانس لی تو کچھ اوسان بحال ہوئے۔ دل اب بھی قابو میں نہیں آرہا تھا۔ دھڑک دھڑک دھڑکے جا رہا تھا۔ اسٹاپ پر تازہ تازہ ہرے امرود ٹھیلے پر بک رہے تھے۔ کسی نے بتایا تھا کہ دل کے دورے میں امرود بہت اکسیر ہے۔ جیب دیکھی تو کرایے کے علاؤہ ایک روپیہ زر کثیر پایا۔ اس زمانے میں بھی مہنگائی تھی۔ ایک روپے میں دو امرود مل جاتے تھے۔
ہم نے زندگی بچانے کے لیے دو امرود لے لیے۔ اس وقت ایک مسئلہ اور دل پیش تھا اور وہ تھا ان کے دھونے کا۔ دل نے کہا: میاں اگر انہیں دھونے کے چکر میں وقت لگایا تو مجھ سے ہاتھ دھو بیٹھو گئے۔ سو پہلے تو ان دونوں امرودوں کو اپنے جراثیم لگے ہاتھوں سے صاف کیا۔ اس کے بعد پینٹ سے بھی رگڑ کر ڈبل صاف کر لیے جیسے فاسٹ بالر گیند کرانے سے پہلے کرتے ہیں۔ اب جو کھانے کے لیے پہلے امرود پر دانت گاڑھے تو ایسا احساس ہوا کہ امرود تو نمرود کی طرح سخت ہے۔ ہم نے سوچا کہ صورت حال ایمرجنسی کی ہے۔ اس نمرودیت کو کچا چبانے کے علاؤہ زندگی بچانے کی کوئی اور صورت نہیں۔
ابھی اسٹاپ پر کھڑے کھڑے سوچ رہے تھے:
دھیرے دھیرے دھڑک اے دل بے قرار
کوئی آتا ہے، کوئی آتا ہے
ایک امرود چبایا ہی تھا کہ سامنے سے درد مند حسینہ ڈبلیو گیارہ بل کھاتی لہراتی سامنے آ کھڑی ہوئی۔ دل نے کہا کہ اس سے بہتر ایمبولینس سروس اس وقت دستیاب نہ ہوگی۔ بس اتنی جگہ تھی کہ آپ گیٹ پر اپنی ایک ٹانگ اڑا سکیں۔ ہم نے دکھے دل کے ساتھ گیٹ پر لٹکے کا دلیرانہ فیصلہ کیا۔ ایک ہاتھ سے گیٹ کا ڈنڈا پکڑا اور دوسرے ہاتھ سے دوران سفر دوسرا امرود بھی کھا لیا۔
ڈبلیو گیارہ کی شوخ و چنچل ادائیں جاری تھیں۔ کہیں کہیں ساتھ والی ویگن سے ملن کے آثار نمودار ہوتے تو دل دھل جاتا مگر ہم کمال مہارت سے خود کو بچا لیتے اور دل سنبھل جاتا۔ کنڈیکٹر چل میرا بھائی آگے کو نکل کی آوازیں لگاتا رہا۔ اندر ہر مسافر دوسرے کے منہ کو آتا رہا۔ ہم نے سوچا اوپن ائیر آکسیجن سب سے زندگی آمد ہے۔ لٹکے رہو۔ اندر اٹکے تو پھر کاندھوں پر آؤ گے۔
ویسے اندر سے لتا کے گانے "دشمن نہ کرے دوست نے وہ کام کیا ہے" کی دل سوز آواز، ڈبلیو گیارہ کی برق رفتاری اور کنڈیکٹر کی سیٹیاں دل کے گھونسلے کو حوصلہ بخش رہی تھیں۔ اسٹاپ آیا تو ڈبلیو گیارہ سے ہمارے ایک اور دوست مرغی کی طرح برآمد ہوئے۔ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھ کر تالی ماری۔ گھر گھر آتے اتے گلی کے قصے، ٹھٹھول بازی، مسخرا پن اور وہ دل کی تکلیف؟ ارے چھوڑیں جناب جوانی میں یہ سب کچھ دیر کے لیے ہوتا ہے۔ دورہ دل کا ہو یا محبت کا۔۔ کچھ دیر کے لیے اٹھتا ہے۔