Frederick P. Nazareth, Tang Magar Seedhe Raste Ka Musafir
فریڈرک پی۔ نزرتھ، تنگ مگر سیدھے راستے کا مسافر
ایک رات فون کی گھنٹی بجی۔ انہوں نے فون اٹھایا۔ دوسری جانب سے کہا گیا کہ آپ سے صدر پاکستان بات کرنا چاھیں گے؟ انہوں نے قدرے حیرانی سے کہا: " کون؟"۔ اب جو دوسری آواز آئی وہ اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف کی تھی۔ یہ کال ان صاحب کو ان کی والدہ کے انتقال پر کی گئی تھی۔ صدر مملکت نے کہا کہ مجھے انتقال کے کافی دنوں بعد آج ہی یہ خبر ملی ہے۔ بہت افسوس ہوا۔ جن صاحبہ کے انتقال پر تعزیت کی گئی وہ سینٹ پیٹس اسکول کے سائنس ٹیچر Oswald B. Nazareth کی اہلیہ تھیں اور تعزیت وصول کرنے والے تھے ان کے بڑے صاحبزادے فریڈرک نزرتھ۔ جنرل پرویز مشرف O. B. Nazareth کے شاگرد تھے
یہ واقعہ فریڈرک صاحب نے ایک دن روانی میں سنا دیا۔ فریڈرک صاحب کے والد کے شاگردوں کی فہرست بہت طویل ہے جس میں سابق وزراء اعظم خان محمد جونیجو اور شوکت عزیز کے علاوہ متعدد وزراء، سفراء، جج صاحبان اور نہ جانے کون کون شامل ہے۔ اپنے لڑکپن کے زمانے میں ایک دن فریڈرک نزرتھ نے اپنے والد سے کہا تھا کہ آپ ٹیچر کیوں بنے جبکہ خاندان کے لوگ دیگر شعبوں میں ملازمت کرکے پر آسائش زندگی گزار رہے ہیں۔ بیٹے کے اس سوال پر باپ نے بہت تحمل و پیار سے کہا تھا کہ میری ترجیح پیسے کمانا نہیں۔ میری ترجیح انسانوں کی بہتری ہے۔ تم جس شعبہ کا چاھو انتخاب کرو۔ بس ایمانداری کے تنگ مگر سیدھے راستہ پر چلتے رہنا کہ یہی سب سے بہترین راستہ ہے۔ بیٹے نے باپ کی یہ بات ہمیشہ کے لئے ذہن میں بٹھا لی اور اسی تنگ مگر سیدھے راستے کا مسافر ہے۔
فریڈرک صاحب نے یہ باتیں ایک دن مجھے بتائیں تو میں سوچنے لگا کہ ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں۔ فریڈرک صاحب کا حلقہ احباب بھی اتنا وسیع اور متنوع ہے کہ اگر وہ صرف گنوانے بیٹھ جائیں تو سامنے والا مرعوب ہی ہوتا چلا جائے۔ میں نے ایک مرتبہ ان سے کہا تھا کہ سر آپ کا دوستی کا سرکل لندن سے لانڈھی تک پھیلا ہوا ہے تو اپنی بھاری بھرکم آواز میں قہقہ لگا کر رہ گئے۔
میری پیشہ ور زندگی میں فریڈرک نزرتھ ان چند منتخب لوگوں میں سے ایک ہیں جن کی حق گوئی اور اصول پسندی کا میں ہمیشہ معترف رہا ہوں۔ 90 کی دھائی کے ابتدائی سالوں میں فریڈرک صاحب، غفور شہزاد اور میں ایک ہی ایڈورٹائزنگ ایجنسی کے ایک کمرے میں بیٹھا کرتے تھے۔ کام کے ساتھ ساتھ باتیں اور ہنسی مذاق چلتا رہتا۔ میں تجربے، عمر اور عہدے میں فریڈرک صاحب سے چھوٹا تھا۔ ان کے ماتحت تھا مگر یہ ان کی بڑائی تھی کہ انہوں نے کبھی مجھے " چھوٹا " نہ جانا بلکہ ہمیشہ کام میں حوصلہ افزائی کے لئے برابری کا درجہ دیا۔ یہ ان کی اعلی ظرفی اور خاندانی تربیت تھی۔
فریڈرک صاحب کے والد کا تعلق منگلور جبکہ والدہ کا تعلق کراچی سے تھا۔ O. B. Nazareth صرف 3 سال کی عمر میں کراچی آ گئے تھے۔ فریڈرک صاحب قیام پاکستان سے دو ایک سال پہلے کراچی میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں سابق بندر روڈ (اب ایم اے جناح روڈ) پر جہاں سے ریگل کے لئے بسیں مڑتی ہیں اور جس کے کونے پر مڈ وے نامی اسپتال کی کئی منزلہ بلڈنگ ہے اس گھر میں بچپن گزرا۔ بتاتے ہیں کہ گھر بہت بڑا تھا۔ ریکیوزیشن کے تحت گھر کے تیسرے حصہ میں ان کی فیملی جبکہ بقیہ دو حصوں میں سے ایک میں سرتاج عزیز (سابق وفاقی وزیر) رہا کرتے تھے جو اس وقت سرکاری ملازم تھے اور جوائنٹ سکریٹری کے عہدے پر تھے جنہیں فریڈرک صاحب تاجی انکل کہا کرتے تھے۔ اسی طرح ان کی بہن مشہور ادیبہ محترمہ نثار عزیز بٹ کو سارو آنٹی کہا کرتے تھے۔ فریڈرک صاحب نے بتایا کہ ایک زمانے میں سابق کمشنر کراچی اے ٹی نقوی (ابو طالب نقوی) بھی یہاں رہ چکے ہیں۔
دیکھئے اتنی باتیں ہوگئیں۔ یہ نہیں بتایا کہ فریڈرک دیکھنے میں کیسے ہیں؟ قد لمبا ہے۔ رنگ انگریزوں والا گورا، جسم متناسب۔ عمر کا پوچھیں گے تو جتنی وہ بتاتے ہیں اس سے 10 سال کم از کم چھوٹے لگتے ہیں۔ لوگ بدن چور ہوتے ہیں۔ فریڈرک صاحب عمر کے معاملے میں خاصے چور واقع ہوئے ہیں۔ فریڈرک صاحب نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے انگلش کیا۔ مختلف اداروں میں ملازمت کرنے کے بعد 1978 میں ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں ڈائریکٹ " کریٹیو ڈائریکٹر " کے طور پر ملازمت اختیار کی جو آپ کی تخلیقی صلاحیتوں کا ابتدا میں ہی اعتراف تھا۔ فریڈرک صاحب کے بقول کچھ افراد کو اعتراض بھی تھا۔
فریڈرک صاحب میری طرح لیفٹ ہینڈر ہیں۔ کمپیوٹر اس وقت نہیں آیا تھا۔ اس زمانے کی خاص بات یہ تھی کہ بیشتر کریٹیوز پینسل سے لکھا کرتے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ اپنا لکھا خود سے بہتر کرنے یا بفرمائش کلائنٹ تبدیل کرنا پڑتا تھا۔ فریڈرک صاحب اپنا الٹا ہاتھ اس طرح گھما کر لکھتے ہیں، لگتا ہے کہ کوئی ان کے سامنے بیٹھ کر لکھ رہا ہے۔ تخلیقی صلاحیتوں کے بارے میں، میری رائے کی کیا اہمیت ہے لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ اگر کلائنٹ کی بریف نہیں بدلی ہے تو پھر فریڈرک صاحب کی کاپی کو چھیڑنے سے بہتر ہے کہ کسی شیر کے منہ سے نوالہ چھین لیا جائے۔ فریڈرک صاحب کو خاض طور پر اپنے تخلیقی کاموں کی خود نمائی بالکل پسند نہیں اس لئے جو ادھر ادھر سے پتہ چل گیا یا جو کبھی انہوں نے کسی قصہ کہانی کے ذیل میں بتا دیا بس اتنا ہی معلوم ہے۔ اپنے وقتوں کی بڑی بڑی Campagins فریڈرک صاحب کے زور قلم کا نتیجہ ہیں۔ کمرشلز لکھے بھی اور ڈائریکٹ بھی کئے۔ اس ضمن میں بیرون ملک جانا بھی ہوا۔
جیسا کہ پہلے تحریر کیا کہ دوست، احباب بہت ہیں۔ آرٹ، ادب کے دلدادہ ہیں۔ اس لئے اپنا ایک مخصوص سرکل ہے جس کا ان کی پروفیشنل لائف سے میرے خیال میں کبھی کوئی تعلق نہیں رہا۔ شخصیت اس وقت تک بہت سادہ اور آسان ہے جب تک انہیں سامنے والے کی ریا کاری اور منافقت کا پتہ نہ چل جائے۔ ذرا سی دیر میں حساب کتاب برابر کر دیتے ہیں وہ بھی اتنی شائستگی کے ساتھ کہ متاثرہ شخص کو گھر جا کر احساس ہو۔ لگی لپٹی رکھتے نہیں، پیٹھ پیچھے برائی کرتے نہیں تو اب ایسے لوگ تو بدتمیز اور منہ پھٹ ہی کہلائیں گے مگر فریڈرک صاحب ان باتوں کی پروا کہاں کرتے ہیں۔ مزاج میں سادگی اور انکساری ہے اس لئے ہر ملنے والا یہ سمجھتا ہے کہ فریڈرک صاحب صرف ان کے قریبی دوست ہیں۔
بقول محسن صدیقی:
حسن ظن میں ہو مبتلا محسن
وہ تو ہنس کر سب ہی سے ملتا ہے
آپ کا مسئلہ بھی عجیب ہے۔ بڑوں (مالی طور پر) کی چھوٹی سی چھوٹی بات پکڑ لیتے ہیں اور چھوٹوں کی بڑی سے بڑی بات پر صرف نظر کر جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چھوٹے تو ان سے بے دھڑک بات کرتے ہیں جبکہ بڑوں کا دل دھک دھک کرتا رہتا ہے۔ ویسے میرا خیال ہے کہ اگر پڑھے لکھے نہ ہوتے تو لیبر لیڈر ہوتے اور اپنی بے باکانہ طبیعت اور باغیانہ خیالات کے باعث نہ جانے کتنی مرتبہ ملازمت سے ہاتھ پیر سب دھو چکے ہوتے۔
جس معاشرے میں احمق سے احمق بھی انگریزی بولے تو اپنے آپ کو برتر سجھنے کے خبط میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یہ عمل وہ زیادہ دھڑلے سے اس وقت کرتا جب سامنے انگریزی سے عدم واقفیت والا موجود ہوتاکہ جو چاھے سو بولے مگر پکڑنے والا کوئی نہ ہو۔ فریڈرک صاحب ایسے کسی خبط میں مبتلا نہیں۔ انسان سے اس زبان میں بات کرتے ہیں جس میں دونوں کو سہولت ہو۔ میں نے اکثر انگریزی کا بھرم مارنے والوں کو فریڈرک صاحب سے اردو میں بات کرتے دیکھا ہے۔ فریڈرک صاحب کی انگریزی اور اس پر ان کا accent لگتا ہے آپ کسی بہت پڑھے لکھے گورے سے ہم کلام ہیں۔
فریڈرک صاحب کسی قسم کی احساس کمتری کا شکار نہیں۔ اس لئے کبھی جھوٹ بول کر کسی کو شکار کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ بلا کم و کاست ہر بات بتا دیتے ہیں۔ ایک دفعہ سردیوں کے دن بہت اچھا کوٹ پہن کر آئے۔ میں نے اس خیال سے کہ باہر جاتے رہتے ہیں، خرید لیا ہوگا۔ بولے لنڈا بازار سےخریدا ہے۔ ساتھ قیمت بھی بتادی۔ میں نے کہا "مذاق کر رہے ہیں"۔ بولے " ایسا بالکل بھی نہیں۔ جس نے پوچھا اس کو یہی بتایا "۔
فریڈرک صاحب اردو بولنے کے دلدادہ ہیں۔ بہت بہتر اور روانی سے بولتے ہیں اور پڑھ بھی لیتے ہیں۔ سب سے زیادہ لطف اس وقت آتا ہے جب آپ غصے میں ہوں اور اردو بول رہے ہوں۔ ان کے مخصوص جملے ہیں۔ قسم خدا پاک کی، میرا تو ماتھا گھوم گیا، مجھے تو غصہ چڑھ گیا۔ فریڈرک صاحب کا حس مزاح قیامت کا ہے۔ خاص طور پر جب گفتگو اردو میں ہو رہی ہو۔ ایسے ایسے جملے اور استعارے استعمال کرتے ہیں کہ اہل زبان گھوم کر رہ جائیں۔ ناموں کو شخصیت کے لحاظ سے تبدیل کرنے میں ید طولی رکھتے ہیں۔ ایک صاحب ہوا کرتے تھے گل فراز۔ فریڈرک صاحب جس کام کا کہتے اس کے کرنے میں دیر سویر ہو جاتی تو بہانہ بازی کرتے۔ فریڈرک صاحب نے ان کا نام رکھا " فل فراڈ "۔
فریڈرک صاحب ہر سال سیاحت پر بیرون ملک جاتے ہیں اور بطور ثبوت تصویریں فیس بک پر آپ لوڈ کر دیتے ہیں۔ اسٹیج پر انگریزی ڈراموں میں اداکاری کر چکے ہیں۔ فوٹوگرافی کی باریکیوں کو سمجھتے ہیں۔ اچھے فوٹو گرافر ہیں۔ آواز کا یہ ہے کہ ایک مرتبہ کسی ٹی وی ڈرامے میں جواہر لال نہرو کے لئے آپ کی آواز لی گئی۔ فریڈرک صاحب سب کے کام آنا چاھتے ہیں لیکن کسی سے اپنے کام کے لئے کہنا ان کی سرشت میں نہیں۔ چند سال پہلے آپ کو آنکھ کا آپریشن کرانا پڑ گیا۔ مجھے کال کرکے کہا " عزمی، کیا آپ مجھے ایک favour دے سکتے ہیں؟"۔ میں نے کہا " سر favour کیا ہوتا ہے؟ آپ حکم کریں"۔ بولے " مجھے آپ کو گھر سے آہریشن کے لئے اسپتال لے جانا ہوگا "۔ میں نے اسے اپنا اعزاز جانا۔ شاید اپنے طور پر یہ واحد favour انہوں نے لیا ہوگا اور نہ جانے کتنا سوچنے کے بعد میرا نام فائنل ہوا ہوگا۔
26 -27 سال کا تعلق ہے۔ بہت کچھ لکھنے کو ہے۔ بس یہی کہوں گا کہ کچھ لوگ پہلی ملاقات میں دل میں اتر جاتے ہیں اور کچھ پہلی ملاقات میں ہی دل سے اتر جاتے ہیں۔ فریڈرک صاحب دل میں اتر جانے والی شخصیت ہیں۔ اگر کبھی آپ کی ملاقات ہو جائے تو آپ کا دل میری اس بات کی گواہی دے گا۔
میں جب انہیں بتاوں گا کہ آپ پر آرٹیکل لکھا ہے تو پہلے ایک زوردار قہقہہ لگائیں گے اور پھر کہیں گے:
Oh.. really!